Kitaben Parhne Ke Mausam
کتابیں پڑھنے کے موسم
الماری میں ایک ایسی کتاب ہوتی ہے جسے بری طرح پڑھنا چاہتے ہیں لیکن دماغ کہتا ہے۔ نہیں، درجہ حرارت 10 ڈگری، آسمان ابر آلود اور تھوڑی سی ہوا ہونی چاہیے، اور یہ پڑھتے وقت آپ کے پاس چائے ضروری ہے۔
رائٹر اپنی کتاب پر یہ لکھتا نہیں ہے مگر ہر کتاب پڑھنے کا موسم ہوتا ہے، تقاضے ہوتے ہیں لوازمات ہوتے ہیں۔ کوئی بھی کتاب کسی بھی وقت نہیں پڑھی جاتی۔ پڑھ لی جائے تو اسی وقت پوری سمجھ میں نہیں لائی جاسکتی۔ سمجھنے کے لیے فارغ وقت دماغی کشادگی اور وسعت کے ساتھ فزیکل ماحول کے اثرات کتاب کی گہرائی میں اترنے کے لیے چاہیے۔
کتاب جس ماحول میں پڑھی جائے وہ یاد رہتا ہے۔ کوئی پڑھی ہوئی کتاب سوچیے، ذہن میں کتاب کے تھیم کے ساتھ وہ موسم جگہ ماحول اور اِن سے جڑی کیفیات ساتھ آئے گی۔
کچھ کتابیں صرف جاڑے کے گرم کپڑے پہن کر پڑھنے پر پورا لطف دیتی ہیں کچھ کتابوں کے پڑھنے کا موزوں وقت جون جولائی کا ہے جب ہوا میں آموں کے چھلکوں کی مہک حبس کے ساتھ گھل رہی ہو، کچھ کتابیں خالی کمرہ مانگتی ہیں کچھ چلتی ٹرین یا بس کی ونڈو سیٹ چاہتی ہیں۔
کتاب کے ساتھ فلمیں بھی صیحیح سمے چاہتی ہیں۔ آدمی کے ساتھ ایسی کیا دماغی حرکت ہوتی ہے جو دیکھی ہوئی فلم دوبارہ دیکھنے کی خواہش للچا اٹھتی ہے؟
کہانی، کریکٹر پلاٹ؟ نہیں۔ یہ چیزیں تو پہلے سے پتہ ہیں تو اِس فلم کو دیکھتے ہوئے محسوس کی ہوئی کیفیات ہیں جو اب دوبارہ ڈھونڈ کر محسوس کرنے کی خواہش میں فلم ری واچ کی جاتی ہے۔
کیفیات ماحول سے بنتی ہیں۔ دیکھی ہوئی فلم کو پہلی بار جیسا محسوس کیا تھا دوبارہ دیکھنے پر ہر سین کے ساتھ پرانا محسوس کیا واپس لوٹتا ہے۔ کہاں دیکھی تھی کس کے ساتھ دیکھی تھی کن مالی حالات میں دیکھی تھی خوشی میں دیکھی تھی اکتاہٹ میں یا شدید غم میں فلم یہ ساری یاداشت رکھتی ہے۔
ماحول کا تعین کیے بغیر مزاج کی مانگ کو رد کرکے کوئی بھی کام کیا جاسکتا ہے حتی کہ کتاب پڑھی جاسکتی ہے فلم دیکھی جاسکتی ہے مگر سمجھی جاسکتی ہے؟ اور کیا ٹھیک سے سمجھی جاسکتی ہے؟ مشکل ہے۔