Khud Ko Maaf Kar Dein
خود کو معاف کر دیں
سب سے معافی مانگ کر سب کو معافی دے کر انسان شاید ہی کبھی ٹھہر کر اپنا کیا قبول کرتا ہو خود سے معافی مانگ کر خود کو معاف بھی کرتا ہو۔ انسانی فطرت کا مزاج عجب ہے یہ سب کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھنے کی کوشش میں ہلکان ہے مگر اپنے ساتھ بہت برا سلوک رواں رکھتی ہے، اپنی ذات کو روند کے رکھ دیتی خود سے آنکھیں ملانے کی ہمت نہیں دیتی خود کو معاف نہیں کرتی۔
ماضی میں غلطیاں ہوئیں، کسی کا دل توڑا کسی کو رلایا تکلیف پہنچائی سنگدل رہے سرد مہری سے کام لیا لوگ روٹھ کر جاتے رہے پرواہ نہیں کی ماں سے الجھے باپ سے بدتمیزی کی بہن بھائیوں کو دبا کر رکھا اسکول میں بدمزاج رہے کلاس فیلوز پر غضب ڈھایا کلاس بُلی مشہور رہے مگر اب یہ سب ہوچکا، یہ وقت گزار چکے اور بطور انسان بدل بھی چکے۔ بہت دیر پشیمانی کی قید میں گلٹ کی چکی کاٹ چکے اب اپنے کیے سے رہائی کا وقت ہے اب خود کو صدقِ دل سے معاف کر دینا چاہیے۔ جو سفر طے کر چکے اسکی مسافت کو سوچنا محض تھکان میں اضافہ ہے۔
ناکام محبت پر خود کو قصوروار ٹھہرا تو لیا اب اور کیا چاہتے ہیں؟ کسی کی مدد کو پہنچ سکتے تھے، ارادتاً نہیں پہنچے، بہت برا کیا مگر اب دل پچھتاوے کی کھونٹی سے کب تک باندھے رکھنا ہے؟ ایک تھپڑ جو بہن کو نہیں مارنا تھا ایک گالی جو دوست کو نہیں دینی تھی ایک سکون کا لمحہ جو ماں کو دینا تھا ایک بات جو باپ سے سانجھی کرنی تھی نہیں ہوسکی، فرد اور وقت دونوں گزر گئے، جانتے بھی ہیں کہ اب فائدہ کوئی نہیں تو پھر خود کو تنگ کیوں رکھتے ہیں؟
معافی مانگنے والے جب موجود نہیں رہے تو خود کو معاف کیوں نہیں کرسکتے؟ آزاد کیوں نہیں کرسکتے؟ سکون میں رہنا نہیں چاہتے یا گلٹ میں رہنے کو سکون کا زریعہ بنایا ہوا ہے؟
پچھتاوے کا وقت بھاری ہوتا ہے اپنا معاوضہ وصول کرتا ہے مگر معاوضہ کتنا ہو یہ آپ طے کرتے ہیں اور ایک حد سے زیادہ دینا اور دیتے چلے جانا ذہنی کنگال کر دیتا ہے۔
اپنے کیے کی معافی مانگنے کے بعد بھی رہائی کو نہ ترسیں زندگی غلطیوں سے عبارت ہے آپ برے انسان ہوسکتے ہیں، کسی کا حق مار سکتے ہیں، تکلیف پہنچا سکتے ہیں کسی کی رسوائی کا زریعہ بن سکتے ہیں مگر مزاج کے ارتقاء کو سمجھیے، سمجھ میں آئے تو فوری معافی کے لیے فرد کی جانب رجوع کریں اگر معافی نہ بھی ملے تو خود کو قبول کرکے اپنے اوپر درگزر والا معاملہ کریں۔