Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sondas Jameel
  4. Jubilee A Tale Of Bombay Talkies (2)

Jubilee A Tale Of Bombay Talkies (2)

جوبلی اے ٹیل آف بمبے ٹاکیز (2)

سب سے اونچے سُروں میں بنگالی فلم انڈسٹری کے سب سے درخشندہ ستارے پروسنجیت رہے، جنہوں نے ہمانسو رائے کے کردار کی تمام تر نفسیات جن میں ہمانسو کا گاڈ فادر کریزما، فلم میکنگ میں جدت کا جنون، ظالم آقا، اور بےبس شوہر کے سب ہی سُر بےحد احتیاط سے نبھائے۔

گو کے جوبلی سیزن کی جڑ بمبے ٹاکیز ہی ہے جس کا نام سیزن میں کرئیٹو لبرٹی لیتے ہوئے رائے ٹاکیز رکھا گیا مگر اس سیزن کے سب پلاٹ میں فکشن کے تمبو تلے عام مگر گہرے کردار پنپتے ہیں۔ ہر کردار اپنے گرے شیڈ میں اپنے مقاصد کے حصول کی جانب کسی نہ کسی کو کچلتا، manipulate کرتا، یا سمجھوتے کرتا آگے بڑھتا ہے، آگے بڑھنے کی رفتار سب کی آپس میں باہمی طور پر جڑی ہے۔

بمبے ٹاکیز کا جہاں آباد کرنے میں کئی فلمی رائٹرز، ایکٹرز اور ڈائرکٹرز کی زندگیاں تھیں۔ بمبے ٹاکیز اپنے وقت میں کسی کا خواب، کسی کا جنون، کسی کا حسد اور کسی کا کاروبار ہوا کرتا تھا۔

کشور کمار اور لتا ایک ہی تانگے سے اتر کر بمبے ٹاکیز کے گیٹ سے اندر آتے اور ایک طرف ہوکر میوزک اسٹوڈیو میں یہ گلے اس بات سے بے نیاز موسیقی ریکارڈ کرواتے کہ ان کی آوازوں کی عمریں کتی ہی دہائیوں پر محیط ہوں گی۔ ایک طرف سے سُفید کرتے میں سامنے کے بٹن کھولے، موٹے چشمے کے فریم سے دیکھتا، جیب میں تازہ کہانی، دماغ میں کشیدگی زبان پہ تیزی اور ہونٹوں میں سگریٹ دبائے قدم گھسیٹتا ہوا منٹو بمبے ٹاکیز کے اسٹوڈیو کے دروازے سے بغیر اجازت اندر آتا اور سیدھا شوٹنگ والی جگہ پر جا بیٹھتا۔ اشوک کمار منٹو کو دیکھ کر چلتا سین چھوڑ کر سلام کہنے بھاگتا، منٹو بمبے ٹاکیز کے لیے فلمیں لکھتا اور ان میں بہت سی صرف اپنے دوست اشوک کمار کے لیے لکھتا۔ بمبے ٹاکیز میں آئی ہر نوخیز ہیروئن کو منٹو سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تھا، منٹو کی کہانیاں ہی یہی نوخیز لڑکیاں تھیں اور منٹو کی نوکری یہی تھی کہ وہ بمبے ٹاکیز میں ہی بکھری یہ کہانیاں سمیٹ کر بمبے ٹاکیز کو ہی بیچ دیتا۔

ہمانسو رائے چل بسا، دیوکا رانی نے بمبے ٹاکیز سنبھالا، مگر سنبھالا نہ گیا۔ اشوک کمار کی دیوکا رانی سے ٹھن گئی بمبے ٹاکیز چھوڑ دیا۔ وہ بمبے ٹاکیز جس نے بنگال کے گنگولی کو ایک ٹکنیشن سے اشوک کمار بنایا وہ بمبے ٹاکیز چھوڑ کر ایک اور عہد ساز فلمی اسٹوڈیو فلمستان میں جا روشن ہوا۔ اشوک لمبا جیا، اور ساری زندگی بمبے ٹاکیز کی یاداشتوں میں جیا۔

دیوکا رانی تنگ آ گئی، عروج دیکھا ہو تو زوال دیکھنا موت ہے، دیوکا مرنا نہیں چاہتی تھی سو اس دفعہ مسلمان نجم الحسن کے ساتھ کراچی کی ٹرین پکڑنے کی بجائے جرمن پینٹر کیساتھ شادی کرکے جرمنی مقیم ہوگئی وہ بھی لمبا عرصہ حیات رہیں شاید ہمانسو رائے سے کبھی انہیں محبت تھی ہی نہیں۔

یہ سب واقعات یہ سب داستانیں جوبلی کے کرداروں کی زبانی بہت سی کرئیٹو لبرٹی لے کر اس ڈھب سے دکھائی گئی اور اس وقت کی فلمی پیچیدگیوں، بیک اسٹیج فلمی ہنگاموں، سویت یونین اور امریکہ کے ہندی سینما میں شمولیت اور اثرات، فلم پر سیاسی اثرورسوخ اس طرز سے دکھایا گیا کہ اس سے پہلے شاید ہی کسی اور نے دکھایا ہو۔

جوبلی کے پیچھے دو ہاتھ تھے جن کا تذکرہ بے حد ضروری ہے۔ ایک ڈائیریکٹر اور رائٹر وکرم موتوانی جس کے کریڈٹ پر سیکرڈ گیم، اڈان اور دیوداس کا اسکرین پلے ہے اور دوسرا اتل سبھروال جو ہندی سینما میں ہٹ کر کہانی لکھنے کے لیے جانے جاتے۔ ان دونوں نے مل کر بمبے ٹاکیز کے حقیقی واقعات و کرداروں کو فکشن کی گلی سے گزارا مگر وہاں ٹھہرایا نہیں، شو دس اقسام پر مشتمل ہے ہر قسط کا نام پرانی کلاسک فلموں کے ٹائٹلز پر ہے، فلم میں بمبے ٹاکیز کا سیٹ احاطہ اور فرنیچر پرانے دور کا اور قریب قریب پرانے دور کا رکھنے کی کوشش کی گئی، شو میں ڈھیروں فلیش بیک ہیں اگر آپ نے گرو دت کی کاغذ کے پھول دیکھی ہو یا راج کپور کی چار سے پانچ فلمیں دیکھی ہوں، اگر ان میں سے کچھ نہیں بھی دیکھا ہو تب بھی اس شو کی کہانی اور کردار ایسے ہیں کہ شو شروع سے اختتام تک باآسانی بغیر اکتائے دیکھا جاسکتا ہے۔

شو میں خامی یہی ہے کہ منٹو کا کردار رکھا جاسکتا تھا جو نہیں رکھا گیا، کرداروں میں کم فکشن کے ساتھ زیادہ حقیقت دکھائی جاسکتی تھی، جو نہیں دکھائی گئی۔ خوبیاں بےشمار ہیں، کاسٹنگ حیران کن ہے میوزک میں کوئی ایک گیت ایسا نہیں جسے سکپ کیا جائے، لُوپ پہ سننے والے گیت ہیں، اور ہر گیت پرانے کلاسک گانوں کو ٹربیوٹ ہے اور ہر گیت کے لیرکس میں پہیلی ہے جسے صرف پرانے چاول ہی بوجھ پائیں گے۔ اور ایک بدتمیز کردار والیا سیٹھ کا ہے جسے فلم کی پیچیدہ نالج نہیں، وہ بس پروڈیوسر ہے اور بڑی فلموں اور ہیرو کی کاسٹ کو دیکھ کر پیسہ لگاتا ہے وہ انڈیا میں انگلش فلموں کی پائریٹ کاپیاں لانے اور ملک گیر سینما ہالوں میں چلانے کے لیے بدنام ہے یہ امر دیکھنے لائق بڑا دلچسپ ہے کہ انڈیا میں ہالی وڈ سینما کیسے پہنچتا رہا۔

جوبلی سیزن ہندی سینما کو جدت بخشنے والے بمبے ٹاکیز اور امر ہوکر دلوں میں بسنے والے ہیرو اور ہیروئنز کو ٹربیوٹ ہے جو صرف مخصوص آڈینس کو ہی محظوظ کرسکتا ہے۔ سیزن میں جابجا فلمی استعارے ہیں، حوالے ہیں جنہیں بعد میں ریسرچ کرنے کا اپنا لطف ہے ایک الگ ہی جہاں کھل کر سامنے آجاتا ہے۔

جوبلی دیکھنا شروع ضرور کیجیے باقی بیچ میں چھورنا ہر کسی کا حق ہے۔

Check Also

Richard Grenell Aur Pakistan

By Muhammad Yousaf