Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sondas Jameel
  4. Jinsiyat Aur Adeeb

Jinsiyat Aur Adeeb

جنسیت اور ادیب

فرائیڈ سیکس اور تحلیل نفسی پر لکھتے ہوئے درجنوں دفعہ چونکا اور غلط ثابت ہوا، کمبخت اپنی حسرتیں اور ناآسودہ جنسی جذبات کو نارمل کہتا اور نیورو سائنس سے ثابت کرنے کی کوشش میں سوڈو سائنس کی گلیوں میں اتر جاتا۔

منٹو اکثر جنسی جزبات کے بیان میں بدتمیزی پر اتر آتا، جو کہ قدیم اور کتابی ادب کے اصولوں کی عینکیں لگا کے تحریر پڑھنے والوں پر گراں گزرتا، عام آدمی تو پھر اسے سمجھتا ہی ہوس کا مارا اور ویشیاؤں کا ٹھکرایا ہوا۔

اردو ادب کے کلاسک رائٹرز نے جنس اور جنسی جزبات کے بیان میں قلم تنگ رکھا، اشاروں کنایوں اور مشکل تشبیہات بلکہ پہیلیوں میں اپنے کرداروں کے ان جزبات کو بیان کیا، انتظار حسین کا کردار ذاکر کبھی اپنی محبوبہ کو والہانہ بوسہ نہ کرسکا کھینچ کے گلے نہ لگا سکا پورے ناول میں انگلیوں سے انگلیاں ملنے کا بیان ہی ملتا رہا۔

جنسیات پر لکھنے والے یا تو مبہم انداز اختیار کرتے ہیں یا ہوشربا اور بےباک ہوجاتے ہیں، لکھنے میں کوئی حد مقرر تو نہیں ہے کہ یہاں سے قاری ان کمفرٹیبل ہونا شروع ہوگا اور یہاں تک لکھنے سے وہ کچھ سمجھ ہی نہیں پائے گا کہ لکھنے والا کیا تاثر دے رہا ہے، جنسیات پر لکھنا لکھاری کا کڑا امتحان ہے اور دلچسپ کھیل ہے۔

جنسی جزبات کی نوعیت ایک سی ہے، مخالف جنس کی جانب کشش بھی ایک جیسی ہی ہوتی ہے یہ جزبات عالمی ہیں ایسے میں ان کو بیان کرنے کے لیے مختلف اور منفرد پہلو تلاش کرنا اور پھر اسے بیان کرنے کے لیے الفاظ اور سچویشن کا جال بننا کہ جس میں قاری ان کمفرٹیبل بھی ہو، محظوظ بھی ہو اور ایسا بھی نہ لگے کہ یہ محض لفظی کاروائی ہوئی ہے اور لکھا ہوا سطحی ہی سمجھا جائے۔

جنسیات پر لکھنے والے رائٹرز کو جنسی مریض بھی سمجھا جاتا رہا ہے کہ یہ لوگ سیکس سے آبسیسڈ ہیں، ان کے تخیل میں ہر وقت ایک ہی طرز کے خیالات اترتے ہیں، ان کے قلم کی سیاہی ہمیشہ اپنے کرداروں سے لباس چھین کر بے باکی کی سڑک پر ننگا چھوڑ دیتی ہے۔ اس میں عصمت چغتائی کا افسانے لحاف کا تذکرہ برمحل ہے جس میں عصمت نے اردو ادب میں شاید پہلی بار اتنی بے باکی سے لسبین ریلیشن کے بارے میں اس قدر مضبوط اور دیدہ زیب استعاروں سے لکھا کہ شاید کوئی اور رائٹر اور فیمیل رائٹر کی جانب سے ایسا پہلے لکھا گیا ہو، لحاف اوڑھے دو عورتوں کے کرداروں میں تناؤ ٹنشن اور اٹریکشن کا بیان جس خوبصورتی صفائی اور روانی سے تھا اس پر عصمت چغتائی کو داد کی بجائے مقدمہ جھیلنا پڑا اور عام لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ دراصل لحاف میں محوِ رقص عورت اور کوئی نہیں بلکہ عصمت خود ہی تھی۔

عصمت کے لحاف سے صاف واضح ہے کہ جنسیات پر لکھنے والے رائٹرز کو اس بات پر جج کیا جاتا ہے کہ وہ جو لکھ رہے ہیں وہ ان پر بیت چکا ہے ان کی ذاتی خواہش یا فینٹسی ہے۔ ایسے میں کوئی لکھنے والا یا تو قاری کے ذہن سے مطابقت کے چکر میں بہت کھل کر کھول کھول کر بیان کرتا ہے کہ ففٹی شیڈ آف گرے جیسا ناول نکل کر باہر آتا ہے یا جسم اور جسمانی اعضاء کی نقل و حرکت کو ایسے مبہم انداز میں لکھتا ہے کہ قاری اپنی امیجنیشن کے گھوڑے دوڑا کر تھک ہار کر لکھاری کی ناکامی پر تف بھیج کر منٹو کا کوئی متنازعہ افسانہ پڑھنے لگتا ہے۔

Check Also

Baray Maidan Ka Khilari

By Muhammad Saqib