Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sondas Jameel
  4. Jinsi Harasani

Jinsi Harasani

جنسی ہراسانی

میری بہت ہی قریبی دوست راہ چلتے ہوئے بدترین جنسی ہراسانی کا نشانہ بنی۔ اسے پیچھے سے ایک ادھیڑ عمر مرد نے کمر سے دبوچا، گالوں پر دانتوں سے کاٹا، چھاتیاں اس زور سے بھینچی کے اس کی آنکھیں چبھن سے سرخ اور کڑوے پانی سے بھر گئیں۔

یہ سب یکدم پلک جھپکتے ہوئے رونما ہوا، ظالم نے جاتے ہوئے اس کے پیٹ میں اس زور سے لاتیں رسید کی کہ چند سیکنڈ تک اس کی سانس کی روانی رک گئی۔

ایمبولینس آئی ریسکیو کیا گیا، گالوں سے خون صاف کیا گیا لاتوں کی شدت اتنی تھی کہ وہ ابڈامن انجری کا شکار ہوگئی، پیٹ کے اندر خون کا بہاؤ یکدم رکا اور خون جم کر رسنے لگا، آنت میں شدید ورم پیدا ہوا۔

یہ سب جسمانی زخم رفتہ رفتہ بھر گئے، جسمانی زخم بھر ہی جاتے ہیں مگر اسکا اندرون کبھی اس سانحے کو بھلا نہ سکا، وہ نفسیاتی ہوگئی جو کہ کوئی بھی نارمل دل و دماغ رکھنے والا انسان ایسے سانحے کے گزرنے پر ہوسکتا ہے، وہ گلی میں جانے سے، کمرے سے باہر آنے سے اپنے ہی باپ کے گلے لگنے سے ڈرنے لگی۔

اس واقعے کو اس پر گزرے دو سال ہوگئے مگر اس کی حالت ویسی ہی رہی، نفسیاتی معالج ایک حد تک بکھرے اور ٹوٹے ہوئے اندرون پر مرحم رکھ سکتے ہیں اگر مریض اس کیفیت سے باہر ہی نہ آنا چاہے تو ایسے میں کچھ بھی نہیں ہوسکتا اور اسکا بھی فی الحال کچھ نہیں ہوسکا۔

لڑکی ہو یا لڑکا عمر کے کسی بھی حصے میں اس کے جسم پر اس کی مرضی کے خلاف کوئی ہاتھ بھی رکھے تو وہ زندگی بھر اس شخص کا ہاتھ، چہرا اور وہ بے زار لمحہ نہیں بھول پاتا، اِس ایک ناخوشگوار واقعے کا کسیلا زہر اس کی تمام خوشگوار یاداشتوں میں گھل جاتا ہے۔ اسکا جسم وہ ہاتھ نہیں بھولتا، دماغ پر وہ مکروہ چہرہ زرا سا بھی دھندلا نہیں پڑتا ڈراؤنی فلم کے پوسٹر کی طرح گُلو سے چپک جاتا ہے، وہ رستہ وہ مقام جس پر ہوس سے لتھڑا اجنبی ہاتھ اس کے جسم تک آیا وہ اس جگہ اس رستے سے گزرنے سے کترانے لگتا ہے۔

جنسی ہراسانی کا مرکز صرف جسم نہیں ہوتا، وکٹم کبھی صدمے سے باہر نہیں آسکتا، آجائے تو وہ بدترین شکل میں اپنے ساتھ ہوا سانحہ واپس معاشرے کو بدلے کی صورت میں لوٹاتا ہے۔ ہم ایسے کئی کیسز دیکھ چکے ہیں جس میں جنسی ہراسانی کا نشانہ بننے والے ہی بعد میں ریکشن کے طور پر اسی قافلے کے رہزن بن جاتے ہیں جس پر انہیں خود کبھی لوٹا گیا تھا۔ یہ رویہ عمومی طور پر مردوں میں پایا گیا ہے، عورتیں جو جنسی ہراسانی کا نشانہ بنی وہ یا تو چھپ جاتی ہیں چپ ہوجاتی ہیں یا ذہنی بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں اکثر کیسز میں خودکشی کی کوشش کرتی ہیں جس میں کئی کامیاب ہوتی ہیں اور کئیوں کو بچا لیا جاتا ہے مگر وہ دوبارہ معاشرے کا فعال رکن بننے میں ناکام رہتی ہیں۔

جنسی ہراسانی کے بعد کے آفٹر شاکس کسی بھی مضبوط اعصاب رکھنے والے مرد اور عورت کو بکھیر کر رکھ دیتے ہیں۔ جو واقعہ ایک دفعہ ہوچکا ہوتا ہے گزر چکا ہوتا ہے وہ ذہن میں بیسیوں دفعہ چلتا ہے اور مسلسل چلتا ہے۔ کیسے اسے چھوا گیا دبوچا گیا کہاں کہاں ہاتھ لگائے گئے چوما گیا کاٹا گیا اس کی تصاویر لوپ پہ اس کے ذہن میں چلنے لگتی ہی وہ شخص رپیٹ پہ اپنے ساتھ ہوئے ان اذیت ناک لمحوں کو دیکھنے پر مجبور ہوجاتا ہے یہ جنسی ہراسانی کا سب سے ہولناک پہلو ہے۔

مرد کا عورت پر جھپٹنا یہ روکا جاسکتا ہے؟ سزائیں اس کا حل ہیں؟ یہ سوال اٹھتے ہیں، بہت سے جواب بھی دیے جاتے ہیں مگر یہ واقعات پھر نہیں رکتے۔ علاقہ کوئی بھی ہو، کسی بھی مذہب کے پیروکار ہوں کوئی بھی زبان بولتے ہوں کسی بھی معزز معاشرے سے ان کا تعلق ہو عورت کو پیچھے سے دبوچ کر مسخ کرنے کا یہ بیمار مردانہ رویہ کہیں قابو نہیں آسکا۔

قدیم قبحہ خانوں سے جدید مصنوعی گڑیوں اور جنسی ٹوائے کی ایجاد نے بھی اس ہیجانی رویے کے نکاس میں کوئی رتی برابر فرق نہیں ڈالا یا شاید اضافہ ہی کیا۔

جنسی ہراسانی کا شکار امریکہ کی مصروف سڑکوں پر چلتی لڑکیاں بھی ہوتی ہیں اور سویٹزرلینڈ کے پرسکون بنچوں پہ بیٹھی کم سن بچیاں بھی اس اچانک حملے سے آزاد نہیں، ساحل سمندر پر بکنی پہنے لڑکیوں کے جسم پر بھی بغیر اجازت کے ہاتھ پہنچ جاتے ہیں اور حفاظت کے پہروں میں چلتی لڑکیوں کے شٹل کاک برقعوں کے نیچے بھی یہ سہلاتے ہاتھ رسائی حاصل کرلیتے ہیں۔

ان ناپسندیدہ جبری ہاتھوں کو کاٹ بھی دیا جائے تو دنیا میں ایسے کئی اور ہاتھوں سے کئی اور جسم کیسے بچائے جائیں؟ یہ واقعات کبھی صفر نہیں ہوں گے پوری انسانی تاریخ ان سے بھری ہوئی ہے کوئی قوم جو ان ہاتھوں کی غلاظت سے پاک ہو! یقیناً کوئی نہیں۔

ایسے میں ضرورت اس چیز کی ہے کہ ان ہاتھوں کے سدباب کے ساتھ ان جسموں کو اعتماد میں لیا جائے جن پر ان ہاتھوں کے قبیح لمس نقش ہوئے، جنہوں نے ان ہاتھوں کا بار اٹھایا اور زخمی ہوئے انہیں بتایا جائے اور قبل از وقت بتایا جائے کہ جنگل میں یہ ہاتھ دندناتے پھرتے ہیں ان سے خطرہ ہے، ان سے بچنا ہے اور اگر کہیں سامنا ہوجائے اور تمہارے جسم پر گھاؤ ڈال دیں تو حوصلہ رکھنا ہے کیونکہ یہ زخم قابلِ علاج ہیں، زندگی ان ظالم ہاتھوں سے بہت بڑی اور بہت وسیع ہے، یہ تمہاری قابلیت نہیں چھین سکتے، جو بھی تم کرنا چاہو اس کرنے کا حق تم سے نہیں چھین سکتے، یہ صرف تمہارا بدن چھو سکتے ہیں تمہارا اندرون صرف تمہاری ملکیت ہے جسے تم جب چاہو جیسے چاہو بدل سکتے ہو اور ان زخموں کے ساتھ تمہیں جینے کا بھرپور حق ہے۔

Check Also

Baray Maidan Ka Khilari

By Muhammad Saqib