Hum Aur Philosophy
ہم اور فلاسفی
اکثریت مذہب کے مطابق زندگی گزرانے کی فلاسفی لیے آخر تک چلی جاتی ہے۔ اچھی بات ہے مذہب مکمل فلاسفی ہے نظریہ ہے کسی نظریے پر یقین حوصلہ دیتا ہے اگر کہیں بکھر جائیں تو ہاتھ دے کر اوپر اٹھا لیتا ہے زندگی چلتی رہتی ہے۔ مسئلہ ان کا ہے جو پچیس سال کی عمر کو پہنچ کر خود کو کسی فلاسفی کے ساتھ اٹیچ نہیں کر پاتے۔
زندگی کا خرگوش ہر سمت سے آڑھے ترچھے دائروں میں گھوم پھر کر ایک جگہ ملتے رستوں کے ایک نشان پر بیٹھا ہے اس خرگوش کو رستوں کے جنگل سے گھمانا ہے کسی رستے پر بھٹک کر گم بھی ہونا ہے مگر کسی ایک رستے کے اختتام پر پڑی گاجر تک بھی پہنچانا ہے کہ جسے دیکھ کر تھکا ہوا خرگوش تھکن بھول جائے اور گمنام رستوں سے گزرنا اور بھٹکنا رائیگاں نہ جائے۔
غلط ڈگری کا لے لینا، تعلق میں منھ کی کھانا، دوست غلط بنا لینا، کسی صلاحیت کا نہ سیکھنا یہ سب راستے ہیں منزل نہیں راستوں سے مڑا جاسکتا ہے صیحیح منزل کا پتہ کسی سے رک کر پوچھا جاسکتا ہے کچھ دیر غلط راستے کی سمت میں بنی آرام گاہ میں بھی لیٹا جاسکتا ہے بھٹکتے ہوئے دیر ہوسکتی ہے مگر بھٹکی ہوئی منزل سے واپس ہٹا جاسکتا ہے۔
بچپن بغیر کسی فلاسفی کے گزرتا ہے اور گزرنا بھی یوں ہی چاہیے، لڑکپن میں کوئی زندگی کی فلاسفی سمجھائے بھی تو رک کر سننا وقت کا ضیاع لگتا ہے مگر لڑکپن گزار کر جوانی کا قدم جب پریکٹیکل دنیا کی راہ پہ پڑتا ہے تو حوصلہ، تعلیم، طاقت اور دماغی صلاحیت بکھرنے لگتی ہے بچپن یاد آنے لگتا ہے لڑکپن ناسٹیلجیا بن کے دکھنے لگتا ہے اس بکھراؤ میں بوکھلاہٹ ہے جہاں روزمرہ کی بے معنویت دکھنے لگتی ہے، زندگی میں مقصد کی غیر حاضری کا احساس ہونے لگتا ہے، وجود کی موجودگی پر سوال اٹھنے لگتے ہیں یہاں فلاسفی ریسکیو کرنے آتی ہے اور بتاتی ہے کہ یہ سب نیا نہیں ہے، یہ پہلے لاکھوں لوگوں نے محسوس کر لیا ہے کچھ نیا اور عجیب نہیں ہے زندگی کی حقیقت ایسی ہے فلاسفی مختلف نظریات کا مینیو کارڈ تھماتی ہے جس میں سے کسی ایک نظریے کو چن کر زندگی میں ٹھہراؤ والی جگہ پہ قبولیت کا مشروب پی کر آگے سفر کو نکلنا ہوتا ہے۔
زندگی میں ابہام کے تصور کو بے معنیت کے تصور سے الجھانا نہیں چاہیے۔ یہ کہنا کہ وجود بے معنی ہے معقول بات ہے، مگر اس سے انکار کرنا کہ اسے کبھی بھی کوئی معنی نہیں دیا جا سکتا غیر معقول بات ہے۔ یہ کہنا کہ زندگی مبہم ہے، درست بات ہے، مگر اس پر ایمان لے آنا کہ اس کا معنی کبھی مستحکم نہیں ہوسکتا دوسری غیر معقول بات ہے۔
عدمیت، لامعقولیت، رواقیت، وجودیت، عملیت، مثالیت یا فقط لذت پسندی کسی بھی فلاسفر کو پڑھیے کسی بھی فلاسفی کا کوئی بھی پاٹ پڑھیں سمجھیں مگر قبول وہی کریں جو زندگی کی طرف لائے۔
اس سیارے سے آگے پیچھے اوپر نیچے دنیا اگر ہے بھی تو آپ کے لیے نہیں ہے آپ کسی انجان ستاروں کے غبار کی پیدائش ہوسکتے ہیں مگر مرنے کے بعد یہ غبار اسی سیارے میں ہمیشہ کے لیے دفن ہونے والا ہے۔ آپکا تخیل اسی سیارے کی دین ہے آپکو زندگی گزارنے کے لیے جن سہاروں، گزر گاہوں اور مقاصد کی ضرورت اور تلاش ہے وہ اگر اس سیارے پر نہیں ہیں تو وہ کہیں اور بھی نہیں ہیں۔
آپکے نظریات اور وجود کا مدار اگر اس سیارے سے باہر نکل بھی گیا تو وہاں بھی جینے کے لیے فلاسفی اسی سیارے سے مستعار لے کر جانی پڑے گی۔