Aaj Ka Insan
آج کا انسان
اگر یہ نہیں جاننا کہ کس یوٹیوبر کی کتنی کمائی ہے اور کتنے افئیرز ہیں مگر الگورتھم پھر بھی بتا رہا ہے، اگر یہ نہیں جاننا کہ کس ایکٹر کی شادی کس ماہ میں ہے اور اس کا بچہ کس اشتہار میں آیا ہے تو پھر بھی پتہ لگ رہا ہے۔ جابجا بکھری بے وجہ معلومات سے گھرے انسان کے پاس سوچنے کو ایک لمحہ نہیں ہے، رکنے کا وقت چلنے کی فکرنے چھین لیا ہے۔
زمین پر انسانی نوع کی اب تک ریکارڈ تاریخ میں شاید ہی اتنا نالج کسی اور وقت میں ماضی کے انسانوں کی دسترس میں ہو جتنا آج کے ایک معمولی سے انسان کے پاس ہے۔ ڈاونچی اپنے وقت کا ذہین ترین انسان تھا۔ اس کی ذہانت اور فن کا دائرہ کسی ایک فیلڈ تک محدود نہیں تھا۔ وہ بیک وقت مونا لیزا پینٹ کرتا، انسانی اناٹومی پر ریسرچ کرتا، آسٹرانومی میں نئے اینگل ڈھونڈھتا، تھیٹر میں ڈرامہ پروڈیوس کرتا، نئے میوزک انسٹرومنٹ ایجاد کرتا، جنگ میں بادشاہوں کو خط لکھ کر جنگی ہتھیاروں کے پر اثر استعمال کے بارے میں آگاہی دیتا گو کہ اس کا علم سطحی نہیں تھا وہ جو بھی جانتا وہ عملی طور پر معنی رکھتا تھا وہ بہت سی فیلڈ میں بکھر کر بھی اپنی ذات کو کسی میں گم نہیں ہونے دیتا تھا۔
آج ایک انیس سال کا جدید انسان ڈاونچی سے دس گنا زیادہ علم رکھ سکتا ہے، وہ اُن چیزوں کی گہرائی میں اتر سکتا ہے جہاں ڈاونچی کی دسترس نہیں تھی، آج کا انسان ڈاونچی سے زیادہ علم طبیعیات فلکیات اور آرٹ کا علم رکھ سکتا ہے ڈاونچی نے جو ساٹھ سال کی عمر میں جانا آج کا انسان ایک کلک پر جان سکتا ہے مگر سوال اٹھتا ہے اور کانٹے کی طرح چبھتا ہے کہ اتنی انفارمیشن تک رسائی اس قدر سہل زریعے سے حاصل کرکے آج کا انسان کیا کرے؟ کہاں استعمال کرے؟ جب اس نے کرنی ہی آٹھ سے پانچ نوکری ہے۔
انفارمیشن نالج اور آگاہی کارآمد ہے یہ غلط فہمی ہمیں کہاں سے ہوئی کس نے دی؟ اس بارے دوبارہ سوچیں۔
امریکہ میں سیاہ فام کو سفید چمڑی والے وارڈن نے جان سے مار دیا ویڈیو بن کے گلوبل ویلج میں آگئی پوری دنیا نے دیکھی، جس کا دکھ نہیں بھی بنتا تھا جس کا رنج اور صدمے میں جانا واجب نہیں بھی تھا وہ بھی اپنے کمرے میں انسانیت کے اس سنگین روپ کو دیکھ کر سہم گیا اور انسان کی فطرت میں چھپے ظلم اور بربریت پہ سوال اٹھانے لگا۔ عملی زندگی میں اس کا فائدہ کیا ہوا؟
جانے بغیر خوش رہا جا سکتا ہے؟ پتہ نہیں۔ مگن رہا جاسکتا ہے؟ بے خوف رہا جاسکتا ہے؟ جی ہاں۔ ظلم کو دکھانا بھی کیپٹلسٹ کی چال ہے، واقعے کو وقوعہ دکھانا بھی ایک منظم سازش ہے۔ ڈپریشن اور غم کی اپنی انڈسٹری ہے، ٹرینڈ روزگار پیدا کرتا ہے، وائرل کرنے میں بےتحاشہ خرچ آتا ہے تو دوسرے اینڈ پہ وصول بھی تو کوئی کرتا ہے۔
علم کے زرائعے اتنے کیوں ہیں اور کیوں چاہیے، کیوں ہر کوئی کچھ نہ کچھ سکھانا چاہ رہا اور کیوں سب کو کچھ نہ کچھ سیکھنا ہے؟ اتنا لکھا نہیں گیا جتنا اکسپلین کرنے والے پیدا ہوئے اور سیکھنے اور سکھانے کے عمل میں یہ اکانومی رال ٹپکائے کیوں بیٹھ گئی؟
مصروف رہنے کے زرائعے محدود کرکے صرف ایک اکائی بنا دیے گئے یعنی جو بھی کرنا ہے ریکارڈ کرنا ہے۔ اداسی ریکارڈ کرنی ہے، خوشی کی کیفیت ہر حال میں لکھ کر بتانی ہے، نیچر میں بھی جاکے سکون اس لمحے میں ہی ہے جب منظر موبائل میں سیو ہو کر کہیں اپلوڈ ہو۔ کیا نیچر میں نکلنا اور سفر کی خوبصورتی محض نئی تصویریں اپلوڈ کرنا ہے؟ الگ تھلگ جنگل میں کیمپ لگا کر کھانے اور پکانے میں لطف کی کشیدگی اجنبیوں کو دکھائے بغیر نامکمل ہے۔ مگر کیوں ہے؟
سکون اور غم اجنبی پبلک کی اسکرین پہ اپلوڈ کردیا اور سارے دن کی بےسکونی اونلی می تک رکھی۔ علم نے کچھ نہیں کیا، نالج محض انٹرنیٹ پہ پڑھی لائنز ہیں ذہانت یہ لائنز شئیر کرنا اور تجربہ معدوم ہے۔
خوشی کا اظہار غم کی بات کسی کے quotes میں ڈھونڈ کر اپنی وال کو ترتیب دینے میں دن گزرے تو زندگی کا خالی پن سوالی بن کے پیچھا نہیں چھوڑتا مگر جواب ڈھونڈنے میں اتنے مصروف ہیں کہ سوال سننے کا وقت بھی نہیں۔
لائٹ بجھائے بند کمرے میں لیٹے اپنے گھڑے الگورتھم سے آتا حیران کن نالج اور سائنس فیکٹ پڑھے بھانت بھانت کی خبروں سے بھرے تجربے اور مشاہدے کا وہمہ پالے دماغ اور جسم گھٹیا پراڈکٹ مہنگے داموں بیچنے کے لیے مفید بن چکے اور خریدنے والا اس خوش فمہی میں ہے کہ پروڈکٹ اُسے فائدہ پہنچا رہی۔ فنی انسان۔