Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sheraz Ishfaq
  4. Pakistani Tv Dramo Ka Ikhlaqi Zawal

Pakistani Tv Dramo Ka Ikhlaqi Zawal

پاکستانی ٹی وی ڈراموں کا اخلاقی زوال

پاکستانی ٹی وی ڈراموں نے ہمیشہ معاشرتی اقدار اور روایات کی عکاسی کی ہے، مگر وقت کے ساتھ ان ڈراموں میں ایک واضح تبدیلی آئی ہے۔ پی ٹی وی کے سنہری دور کو یاد کرتے ہوئے ہمارے ذہن میں ایسے ڈرامے ابھرتے ہیں جو تہذیب، اخلاقیات، اور معاشرتی مسائل کو سنجیدگی سے پیش کرتے تھے۔ ڈرامے جیسے "ان کہی"، "تنہائیاں"، "وارث"، اور "دھوپ کنارے" نے نہ صرف خاندانی نظام کو مضبوط بنانے میں کردار ادا کیا بلکہ انسانی رشتوں کی خوبصورتی اور کرداروں کی ترقی کو بھی اجاگر کیا۔ ان ڈراموں کا بنیادی مقصد ناظرین کو معاشرتی اور اخلاقی تعلیم دینا تھا، جس نے لوگوں کے دلوں میں ایک گہری چھاپ چھوڑی۔

تاہم، نجی چینلز کے دور میں، خاص طور پر 2000ء کی دہائی کے بعد، پاکستانی ڈراموں کا مواد اور معیار تبدیل ہوگیا۔ نجی چینلز نے مارکیٹ میں اپنی جگہ بنائی اور مقابلے کی دوڑ میں ڈراموں کے موضوعات اور معیار میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔ آج کل، زیادہ تر ڈرامے تنازعات، سازشوں، اور غیر اخلاقی رویوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ ان ڈراموں کا بنیادی مقصد ریٹنگز بڑھانا اور ناظرین کی توجہ حاصل کرنا ہے، چاہے اس کے لیے معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔

نجی چینلز کے ڈراموں میں خواتین کے کردار بھی خاص طور پر متنازعہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ان ڈراموں میں خواتین یا تو مظلوم دکھائی جاتی ہیں، جو ہر وقت ظلم و ستم کا شکار ہوتی ہیں، یا پھر وہ ایسی شخصیات کے طور پر پیش کی جاتی ہیں جو معاشرتی حدود کو توڑتی ہیں اور اخلاقی قدروں کو پس پشت ڈال دیتی ہیں۔ اس رجحان نے خواتین کی بڑھتی ہوئی خودمختاری کو منفی طور پر پیش کرنے کا مسئلہ پیدا کیا ہے۔ آج کے ڈراموں میں، جہاں ایک طرف خواتین کی مضبوطی اور خود مختاری کو مثبت انداز میں دکھایا جانا چاہئے، وہاں انہیں منفی کردار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ خود مختار عورتیں معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتی ہیں۔

اسی طرح، ایک اور منفی رجحان بھی ابھر کر سامنے آیا ہے، اور وہ ہے مردوں اور عورتوں کے درمیان ایک فکری جنگ کا پیدا ہونا۔ بہت سے ڈرامے اب اس بات پر مرکوز ہیں کہ مرد اور عورت ایک دوسرے پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے مختلف طریقوں سے ٹکرا رہے ہیں۔ ان کہانیوں میں دکھایا جاتا ہے کہ مرد اپنی مردانگی کا اظہار کرتے ہیں اور عورتیں اپنی خودمختاری کو ثابت کرنے کے لیے جدوجہد کرتی ہیں، جس سے معاشرتی توازن بگڑ رہا ہے۔ یہ فکری جنگ نہ صرف خاندانوں میں انتشار پیدا کر رہی ہے بلکہ معاشرتی تعلقات کو بھی متاثر کر رہی ہے۔

نئے ڈراموں میں ایک اور تشویشناک عنصر نوجوان نسل میں ہیجان انگیز محبت، والدین کے ساتھ بدتمیزی، اور دولت کو اولین ترجیح دینا ہے۔ یہ ڈرامے نئی نسل کو سکھا رہے ہیں کہ محبت ایک جذباتی اور غیر متوازن عمل ہے جس میں انسان اپنی عقل اور تربیت کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ والدین کے ساتھ بدتمیزی اور عدم احترام کو بھی ڈراموں میں ایک عام بات کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جس سے نئی نسل میں بغاوت اور عدم تعظیم کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

دولت اور اس کی نمود و نمائش کو بھی ڈراموں میں بہت زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ ناظرین کو یہ پیغام ملتا ہے کہ دولت ہی کامیابی کی واحد دلیل ہے اور اس کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔ اس سوچ کا اثر نوجوان نسل پر انتہائی منفی انداز میں ہو رہا ہے، کیونکہ وہ اس معیار کے مطابق اپنی زندگی کو ناپنے لگتے ہیں اور حقیقی اقدار کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔

ان ڈراموں کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ناظرین، خاص طور پر نوجوان نسل، ان کہانیوں کو محض تفریح کے طور پر دیکھیں، نہ کہ حقیقت کا عکس سمجھیں۔ ڈراموں کا مقصد ناظرین کو محظوظ کرنا ہوتا ہے، نہ کہ ان کی زندگی کے فیصلوں کو متاثر کرنا۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ بات سمجھائیں کہ ڈراموں میں دکھائی جانے والی کہانیاں حقیقی زندگی کی عکاسی نہیں کرتیں اور انہیں اپنی زندگی کے فیصلے معاشرتی اقدار اور اخلاقی تعلیمات کے مطابق کرنے چاہئیں۔

تعلیم اور خاندانی نظام کی اہمیت کو بھی اجاگر کرنا ضروری ہے۔ نوجوانوں کو سمجھنا چاہیے کہ تعلیم ان کی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے اور اس کے بغیر وہ زندگی کے کسی بھی میدان میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح، والدین اور خاندان کے ساتھ احترام اور اطاعت کا رشتہ برقرار رکھنا معاشرتی کامیابی کی کنجی ہے۔ ہماری ثقافت اور روایات ہمیں یہی سکھاتی ہیں کہ والدین کا احترام اور ان کی خدمت ہماری اولین ذمہ داری ہے۔

اسی کے ساتھ، میڈیا کو بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے ایسے ڈرامے پیش کرنے چاہیے جو ناظرین کی اخلاقی تربیت کریں اور معاشرتی اقدار کی پاسداری کو فروغ دیں۔ پیمرا اور دیگر متعلقہ اداروں کو بھی اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ نشر ہونے والے مواد میں معاشرتی اور اخلاقی قدروں کا خیال رکھا جائے۔

آخر میں، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ڈرامے محض تفریح کا ایک ذریعہ ہیں، اور ان کی کہانیاں حقیقی زندگی پر اثرانداز نہیں ہونی چاہیے۔ اپنی ثقافت، روایات، اور خاندانی نظام کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے، اور ہمیں اس بات کا یقین کرنا چاہیے کہ ہماری نئی نسل صحیح راستے پر گامزن ہو۔

Check Also

Tanhai Ke So Saal

By Syed Mehdi Bukhari