Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sheraz Ishfaq
  4. Nai Nasal Ki Taleemi Taraqi, Tehzibi Challenge

Nai Nasal Ki Taleemi Taraqi, Tehzibi Challenge

نئی نسل کی تعلیمی ترقی، تہذیبی چیلنج

آج کے دور میں جہاں تعلیم کا فروغ اور علم کی دستیابی پہلے سے کہیں زیادہ ہے، وہاں تہذیب اور اخلاقیات کی کمی ایک تشویشناک مسئلہ بن چکی ہے۔ والدین کی یہ شکایت کہ نئی نسل تعلیم یافتہ تو ہے، مگر ان میں تہذیب، محنت، اور معاشرتی اقدار کا فقدان ہے، آج کے معاشرے کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یہ نوجوان اپنے والدین اور بڑوں کے ساتھ بحث و مباحثے میں مہارت رکھتے ہیں، مگر ان میں صبر، محنت، اور عزت و احترام کی کمی ہے۔

اس مسئلے کی جڑیں گہری ہیں اور اسے مختلف زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آج کی نسل کا علم زیادہ تر سوشل میڈیا اور جدید تعلیمی طریقوں پر مبنی ہے۔ ان کا علم کتابوں سے نہیں بلکہ مختصر ویڈیوز، پوسٹس، اور ٹویٹس سے حاصل ہوتا ہے۔ اس علم میں گہرائی کا فقدان ہے اور یہ علم عموماً ناقابل اعتبار ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً، یہ نوجوان ہر مسئلے پر ایک رائے رکھتے ہیں، مگر وہ رائے اکثر سطحی اور بے بنیاد ہوتی ہے۔

تعلیمی اداروں میں بھی ایک بڑی تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ جہاں پہلے تعلیم کا مقصد صرف کتابی علم دینا نہیں تھا بلکہ طلبہ کی شخصیت سازی اور تہذیبی اقدار کا فروغ بھی تھا، وہاں اب تعلیمی ادارے زیادہ تر اعداد و شمار اور تجزیات پر زور دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی نئی نسل میں بحث و مباحثے اور تنقید کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ یہ بحثیں اکثر منفی سوچ اور عدم برداشت پر مبنی ہوتی ہیں۔ تعلیم نے انہیں بات کرنے کا طریقہ سکھایا ہے، مگر سننے اور سمجھنے کا ہنر نہیں دیا۔

آج کے نوجوان اپنے معاشرے کی ناگفتہ بہ حالت سے مایوس ہیں۔ معاشرتی اور اقتصادی نظام کی بدحالی، ناانصافی، اور بے روزگاری نے ان کے اندر ایک نفسیاتی دباؤ پیدا کر دیا ہے۔ وہ بین الاقوامی ترقی کو دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں، مگر اپنے معاشرے کی پسماندگی اور ترقی کے محدود مواقع سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ ان کی یہ مایوسی انہیں تنقید، شکایت اور بغاوت کی طرف لے جاتی ہے۔

اس صورتحال نے والدین اور بچوں کے درمیان تعلقات میں دراڑیں ڈال دی ہیں، جو کہ خاندان کے نظام کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ والدین اپنی زندگی کا خواب اپنے بچوں کے خوابوں کو حقیقت بنانے میں دیکھتے ہیں، جبکہ بچے اپنے خوابوں کی تکمیل کے لئے والدین سے مزید مطالبات کرتے ہیں۔ جب دونوں فریقین کے خواب اور توقعات میں ہم آہنگی نہ ہو تو خاندان کے تعلقات میں بگاڑ پیدا ہونے لگتا ہے اور حالات قابو سے باہر ہو جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جہاں بچوں کے خوابوں کی تعبیر ضروری ہے، وہاں والدین کے خوابوں کی تکمیل بھی اتنی ہی اہم ہے۔ ایک مضبوط اور خوشحال خاندانی نظام کے لئے ضروری ہے کہ والدین اور بچوں کے خوابوں میں ہم آہنگی ہو اور ان خوابوں کو مل جل کر پورا کیا جائے۔ جن خاندانوں میں یہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے، وہ نہ صرف معاشرتی سطح پر ترقی کر رہے ہیں بلکہ ایک مثال بھی بن رہے ہیں۔

والدین کے لئے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کس طرح سنبھالیں۔ جہاں ایک طرف والدین اپنے بچوں کو جدید تعلیم دلوانے کے لئے کوشاں ہیں، وہیں وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے تہذیب، اخلاق اور معاشرتی اقدار کو نہ بھولیں۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ والدین خود بھی اپنے بچوں کے ساتھ جڑنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ وہ ان کے مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش میں اپنی روایات اور تہذیب کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ نتیجتاً، بچوں کی توقعات بڑھتی جاتی ہیں اور وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ مانگتے رہتے ہیں، جس سے والدین کے لئے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔

والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں، انہیں سمجھیں اور ان کی تربیت کریں۔ انہیں صرف ان کی تعلیمی کارکردگی پر نہیں بلکہ ان کی اخلاقی اور تہذیبی تربیت پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ اگر والدین اپنی اقدار اور روایات کو مضبوطی سے تھامے رکھیں تو ان کے بچے بھی ان کی پیروی کریں گے۔

دوسری جانب، نئی نسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے والدین اور معاشرے کی قدر کریں۔ انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ علم صرف کتابوں میں نہیں بلکہ تجربات اور بزرگوں کی رہنمائی میں بھی موجود ہے۔ ان کے والدین نے جو تجربات اور مسائل دیکھے ہیں، وہ ان کے لئے ایک خزانہ ہیں، جس سے وہ سیکھ سکتے ہیں۔

یہ مسئلہ صرف ایک نسل کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نئی نسل محض تعلیم یافتہ نہ ہو بلکہ تہذیب یافتہ بھی ہو، تو ہمیں ان کے ساتھ بہتر تعلقات بنانا ہوں گے۔ والدین اور بچوں کے درمیان اعتماد، محبت، اور عزت کا رشتہ ہونا چاہئے۔ والدین کو اپنے بچوں کی بات سننی چاہئے اور انہیں اپنی روایات اور اقدار سے آگاہ کرنا چاہئے، جبکہ بچوں کو اپنے والدین کی رہنمائی کو قبول کرنا چاہئے اور اپنی زندگی میں ان کی ہدایات پر عمل کرنا چاہئے۔

ایک ترقی یافتہ اور مہذب معاشرہ صرف تعلیم سے نہیں بلکہ تہذیب اور اخلاق سے بنتا ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی نئی نسل کو نہ صرف تعلیمی بلکہ تہذیبی اور اخلاقی لحاظ سے بھی مضبوط بنانا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے ہم اپنے معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں اور ایک روشن مستقبل کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔

Check Also

Do, Rotiyon Ki Bhook Ka Qarz

By Mohsin Khalid Mohsin