Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sheraz Ishfaq
  4. Maghrabi Dunya Ko Mashraqi Dunya Par Tarjeeh

Maghrabi Dunya Ko Mashraqi Dunya Par Tarjeeh

مغربی دنیا کو مشرقی دنیا پر ترجیح

مغربی دنیا کی تنظیم اور اصولوں پر مبنی نظم و ضبط کا مشاہدہ کرتے ہوئے یہ بات ناقابل تردید ہے کہ وہ کئی میدانوں میں مشرقی دنیا پر غلبہ حاصل کر چکے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مغربی معاشرتی اور خاندانی اقدار کے مقابلے میں مشرقی دنیا کو تاریخی طور پر زیادہ مہذب اور خاندانی تعلقات میں مضبوط سمجھا جاتا ہے۔ مشرقی دنیا میں خاندانی نظام، رشتوں کی اہمیت، اور سماجی روایات کا ایک مضبوط پس منظر ہے، جو مغربی دنیا کے مقابلے میں زیادہ روایتی اور ہم آہنگ ہیں۔ پھر بھی، مغرب کی برتری ایک حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے حقائق اور عوامل ہیں جنہوں نے مغربی دنیا کو مشرق پر غالب کر دیا ہے؟

مغرب کی ترقی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں۔ ان میں سب سے اہم ان کا نظام اور اصولوں پر مبنی طرز زندگی ہے۔ مغرب میں ہر فرد کو انفرادی ذمہ داری، وقت کی پابندی اور سخت محنت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ہر شخص کو اپنی جگہ پر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی توقع ہوتی ہے، اور اجتماعی مفادات کو انفرادی مفادات پر ترجیح دینے کا درس دیا جاتا ہے۔ یہ اصول مغربی دنیا کے اداروں، معیشت اور حکومت میں بھی نظر آتے ہیں۔ وہاں ہر سطح پر تنظیم، قانون کی بالادستی اور ضابطوں کے مطابق کام ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مشرقی دنیا میں اکثر جذباتی تعلقات، روایات اور شخصی رابطوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، جو شخصی اور اداروں کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

مغربی دنیا کو "پہلی دنیا" کہا جاتا ہے اور مشرقی دنیا کو "دوسری" یا "تیسری دنیا" کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ فرق معاشرتی، معاشی اور سیاسی ترقی کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ مغربی دنیا کی ترقی یافتہ ممالک معاشی طور پر مستحکم، سیاسی طور پر منظم اور جدید طرزِ زندگی کے حامل ہیں۔ ان میں امریکہ، کینیڈا، یورپ اور دیگر مغربی ممالک شامل ہیں، جنہوں نے سائنسی، صنعتی اور سماجی سطح پر بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ ان ممالک نے عالمی معیشت میں ایک مضبوط مقام حاصل کیا ہے، جبکہ مشرقی دنیا جو کبھی تہذیبوں کا گہوارہ تھی، آج معاشرتی اور اقتصادی مسائل کا شکار ہے۔

مغرب کی تنظیمی اور عملی برتری کا ایک اہم پہلو ان کا تعلیمی نظام ہے۔ مغربی دنیا میں تعلیم صرف کتابی علم تک محدود نہیں، بلکہ تخلیقی سوچ، تجزیاتی صلاحیت اور عملی مہارتوں کو فروغ دیا جاتا ہے۔ تعلیمی ادارے طلباء کو مختلف مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں اور انہیں ایسے وسائل فراہم کرتے ہیں جو مستقبل میں ان کی ترقی کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس مشرقی دنیا میں تعلیم کا مقصد عموماً روایتی علم کا حصول اور نوکری کی جستجو رہتا ہے۔ تخلیقی صلاحیتوں اور انفرادی قابلیتوں کی کمی مشرقی دنیا کی ترقی کو محدود کرتی ہے۔

مغربی دنیا کی ترقی کا سفر اس حد تک پہنچا کہ وہ معاشی اور سیاسی میدان میں عالمی رہنما بن گئے۔ ان کی معیشتیں مضبوط، ٹیکنالوجی میں آگے اور معاشرتی ڈھانچے مستحکم ہیں۔ مغرب نے اپنی صنعتی ترقی، قانون کی بالادستی اور انسانی حقوق کی پاسداری کو ترقی کا ستون بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج لوگ مغربی ممالک کی طرف ہجرت کو ترجیح دیتے ہیں، جہاں معاشرتی ڈھانچہ مضبوط ہے اور انفرادی ترقی کے مواقع زیادہ ہیں۔

مغرب کی معاشرتی برتری کا ایک اور پہلو ان کا جمہوری نظام اور انسانی حقوق کی بالادستی ہے۔ مغربی دنیا میں جمہوریت کو فروغ دیا گیا ہے، جہاں عوام کو اپنی حکومت منتخب کرنے کا حق حاصل ہے اور انسانی حقوق کی پاسداری کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کے برعکس، مشرقی دنیا کے کئی ممالک میں آمریت یا خاندانی سیاست کا غلبہ ہے، جس کی وجہ سے عام عوام کی رائے اور حقوق کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

مغرب کی برتری کا ایک اور اہم پہلو ان کا عوامی فلاحی نظام ہے۔ وہاں کے شہریوں کو حکومت کی طرف سے تعلیم، صحت اور روزگار کی بہترین سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ مغرب میں فرد کی خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے قانون اور ادارے مضبوط ہیں، جبکہ مشرقی دنیا میں حکومتیں عموماً ان مسائل کو نظرانداز کرتی ہیں یا ان کے پاس وسائل محدود ہوتے ہیں۔

اس تمام برتری کے باوجود، یہ کہنا ضروری ہے کہ مشرقی دنیا میں بہت سی ایسی خوبیاں موجود ہیں جو مغرب میں ناپید ہیں، جیسے کہ خاندانی تعلقات کی مضبوطی اور سماجی رشتوں کی اہمیت۔ مشرقی دنیا کی خاندانی اور سماجی اقدار مغربی دنیا کے مقابلے میں زیادہ مستحکم اور مضبوط سمجھی جاتی ہیں، لیکن ان اقدار کی حفاظت اور ترقی کے لیے تنظیمی، تعلیمی اور ادارہ جاتی ترقی کی ضرورت ہے۔ مشرقی دنیا کو اپنی روایات اور خاندانی نظام کو برقرار رکھتے ہوئے مغربی دنیا کی تنظیم اور ترقی کے اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ مغربی دنیا نے جہاں اپنی روایات اور اقدار کو چھوڑ کر ترقی کی راہ اپنائی، وہیں مشرقی دنیا اپنی روایات پر قائم رہتے ہوئے مغرب کی برتری کا مقابلہ کر سکتی ہے۔

ایک پہلو جو خاص طور پر مشرقی دنیا کے لوگوں کو متاثر کرتا ہے وہ ان کے پیاروں، عزیزوں اور رشتہ داروں کی مغربی دنیا کی طرف ہجرت ہے۔ جن افراد کے ساتھ ہم بڑے ہوتے ہیں اور جن کے ساتھ خاندانی رشتے مضبوط ہوتے ہیں، وہ مغربی دنیا میں جا کر وہاں کی شہری زندگی میں ضم ہو جاتے ہیں۔ بسا اوقات وہ اپنی مذہبی شناخت اور خون کے رشتے قربان کر دیتے ہیں، اور ان کی نسلیں ایسی شہری زندگی میں کھو جاتی ہیں جہاں ان کا وجود ماضی کا قصہ بن جاتا ہے۔ مشرقی دنیا کے لوگ جب اپنے پیاروں کو مغرب کی طرف جاتا دیکھتے ہیں اور پھر کبھی ان کی واپسی نہیں ہوتی، تو یہ ایک جذباتی خلاء چھوڑ جاتا ہے۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ترقی کے لیے اتنی بڑی قربانی دینا واقعی قابلِ قبول ہے؟

یہ بات حقیقت ہے کہ مغرب میں ترقی کے مواقع زیادہ ہیں، لیکن اس ترقی کی قیمت خاندانی نظام، رشتوں کی اہمیت اور مذہبی شناخت کے زوال کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔ جن خاندانوں کے افراد مغرب میں ضم ہو جاتے ہیں، وہ نہ صرف اپنی روایات کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں بلکہ اپنی نسلوں کو بھی ایک ایسی زندگی میں ڈال دیتے ہیں جہاں ماضی کی شناخت دھندلا جاتی ہے۔ کیا یہ واقعی اتنا ضروری ہے کہ ترقی کے لیے اپنی جڑوں اور رشتوں کو قربان کر دیا جائے؟ کیا خود کو بہتر بنانے کے لیے وہ سب کچھ چھوڑ دینا چاہیے جو ہمیں ایک خاندان کا حصہ بناتا ہے؟

ہر ایک کے پاس اس دلچسپ سوال کا مختلف جواب ہے ہمارے ذاتی ارادوں اور ترجیحات کے مطابق بہت سے مختلف نقطہ نظر ہیں اور یہ ہمارے خاندانی اصولوں، اقدار اور ہمارے معاشرے اور خاندان کے مجموعی تجربے پر منحصر ہے۔ جس میں کامیابی کے وہ اقدامات شامل ہیں جن کا ہم حساب لگاتے ہیں اور اس کامیابی کے لیے ادائیگی کے لیے تیار ہیں۔

Check Also

Asal Muslim

By Muhammad Umair Haidry