Insan Qismat Ka Qaail?
انسان قسمت کا قائل؟
انسانی زندگی کے پیچیدہ اور گہری فلسفیانہ مباحث میں سے ایک یہ ہے کہ آیا انسان اپنی قسمت کا قائل ہے یا نہیں؟ یہ سوال انسان کے وجودی اور اخلاقی پہلوؤں کے علاوہ، اس کے رویے اور اعمال پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ہماری زندگی میں قسمت کی قدر و قیمت پر غور کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم قسمت کے مفہوم کو سمجھیں اور اسے انسانی شعور اور علم کے دائرے میں دیکھیں۔
قسمت کو عموماً زندگی کے ان واقعات یا حالات کے طور پر سمجھا جاتا ہے جو ہماری مرضی اور کنٹرول کے باہر ہوتے ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو ہمارے انتخاب کے بغیر ہم پر اثر انداز ہوتی ہیں، چاہے وہ کسی خاص وقت میں پیش آنے والے واقعات ہوں یا پھر ہمارے نصیب میں لکھی ہوئی چیزیں۔ کچھ لوگ قسمت کو خدائی حکم یا تقدیر کے ساتھ جوڑتے ہیں، جبکہ دیگر افراد اسے محض زندگی کے حادثات اور اتفاقات کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔
فلسفیانہ طور پر دیکھا جائے تو قسمت کے بارے میں انسان کی سوچ دو مختلف مکاتب فکر میں تقسیم ہوتی ہے: تقدیر پرست اور آزاد فکر۔ تقدیر پرست یہ مانتے ہیں کہ انسان کی زندگی کے تمام پہلو پہلے سے متعین ہیں اور انسان کی مرضی یا کوششیں اسے بدلنے کی قوت نہیں رکھتیں۔ ان کے نزدیک، قسمت انسان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ کسی اعلیٰ قوت کے کنٹرول میں ہوتی ہے۔
دوسری طرف، آزاد فکرکے قائلین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انسان اپنی تقدیر کا خود مالک ہے اور وہ اپنی محنت، علم اور فیصلوں کے ذریعے اپنی زندگی کو شکل دیتا ہے۔ ان کے نزدیک، قسمت ایک ایسی چیز ہے جسے انسان اپنی عقل اور شعور کے ذریعے کنٹرول کر سکتا ہے۔
ان دونوں نظریات کے درمیان ایک تیسرا اور معتدل نظریہ بھی پایا جاتا ہے جو یہ مانتا ہے کہ انسان کی زندگی میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اس کے کنٹرول سے باہر ہوتی ہیں، لیکن وہ اپنی کوششوں، علم اور فیصلوں کے ذریعے ان پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ یہ نظریہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ قسمت کا ایک کردار ضرور ہے، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنی ذمہ داریوں کو پہچانے اور اپنی کوششوں میں کسی قسم کی کمی نہ چھوڑے۔
یہاں پر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ انسانی زندگی میں کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو خود بخود پیش آتے ہیں، جنہیں ہم "ہونے والا" یا "پیش آنے والا" کہتے ہیں۔ ان واقعات پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا، اور انہیں برداشت کرنا ہماری قسمت کا حصہ ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ، کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جنہیں ہم خود اپنی کوششوں سے وقوع پذیر کرتے ہیں، یعنی "کچھ کرنا" یا "کوئی کام انجام دینا"۔
مثال کے طور پر، اگر کوئی انسان اپنی زندگی میں اچانک کسی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے، تو یہ ایک ایسی حالت ہے جو خود بخود پیش آتی ہے، جس پر انسان کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ لیکن اس بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لیے علاج اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا وہ عمل ہے جو انسان خود انجام دیتا ہے۔ یہاں قسمت اور کوشش کا امتزاج ہمیں نظر آتا ہے۔
قرآن مجید میں بھی انسان کی قسمت کے حوالے سے متعدد مقامات پر بحث کی گئی ہے۔ ایک طرف، ہمیں بتایا گیا ہے کہ "اللہ ہر چیز پر قادر ہے" اور "انسان کے نصیب میں جو کچھ ہے، وہ اس کو ملے گا"۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ، قرآن ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ "انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنی کوششوں اور محنت سے کبھی دستبردار نہیں ہونا چاہیے، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کی زندگی ایک متوازن نظام کا حصہ ہے جہاں قسمت اور محنت دونوں کا کردار ہوتا ہے۔ قسمت ایک ایسی چیز ہے جو ہمیں نہ تو مکمل طور پر آزاد چھوڑتی ہے اور نہ ہی ہمیں مکمل طور پر مجبور کر دیتی ہے۔ یہ ہماری زندگی کے کچھ پہلوؤں کو متعین کرتی ہے، لیکن ہماری کوششیں اور فیصلے بھی ہمارے مستقبل کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ زندگی میں جب بھی مشکلات آتی ہیں، تو انسان کو قسمت کا بہانہ بنا کر ہار نہیں ماننی چاہیے بلکہ اپنی کوششوں کو جاری رکھنا چاہیے۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ "اللہ ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں"۔ اس کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو قسمت پر بھروسہ ضرور رکھنا چاہیے، لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنی محنت اور جدوجہد کو بھی جاری رکھنا چاہیے۔
انسان کی قسمت کے بارے میں یہ فلسفیانہ بحث ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کو متوازن اور ذمہ داری کے ساتھ گزارنا چاہیے۔ قسمت پر ایمان رکھنا ضروری ہے، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنی کوششوں اور فیصلوں کو نظر انداز نہ کریں۔ ہماری زندگی کا حقیقی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں اور اپنی محنت سے اپنی قسمت کو بھی بہتر بنائیں۔
آخری بات یہ ہے کہ "ہونے والے" اور "کچھ کرنے" کے درمیان ایک توازن قائم رکھنا ضروری ہے۔ جو واقعات خود بخود پیش آتے ہیں، انہیں برداشت کرنا ہماری زندگی کا حصہ ہے، لیکن جو کچھ ہم کر سکتے ہیں، اسے کرنے کی پوری کوشش کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ یہی توازن ہماری زندگی کو کامیاب اور خوشحال بنانے کے لیے ضروری ہے۔
آخر میں، ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ زندگی اُتار چڑھاؤ کا مجموعہ ہے، جس میں کچھ چیزیں خود بخود ہوتی ہیں اور کچھ چیزیں ہم اپنے اعمال سے وقوع پذیر کرتے ہیں۔ ہمیں ان حالات کا بہادری سے سامنا کرنا چاہیے جو خود بخود پیش آتے ہیں اور ان حالات کے سامنے عاجزی اختیار کرنی چاہیے جو ہم اپنے اعمال سے پیدا کرتے ہیں۔ کیونکہ آخرکار، اللہ ہی وہ ذات ہے جو ہماری جدوجہد اور فیصلوں کا نتیجہ مرتب کرتا ہے۔
لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ ہم زندگی کے نشیب و فراز کو قبول کریں، اپنی قسمت پر ایمان رکھیں، اور اپنی کوششوں سے اپنی زندگی کو بہتر بنائیں۔ اللہ کے فیصلے پر یقین رکھتے ہوئے، ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے اور ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے اعمال کو بہتر سے بہتر کریں تاکہ زندگی کے ہر مرحلے پر کامیاب ہو سکیں۔