Thursday, 19 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sheraz Ishfaq
  4. Digital Tawaif Geeri Aur Gharelu Zindagi Ka Tamasha

Digital Tawaif Geeri Aur Gharelu Zindagi Ka Tamasha

ڈیجیٹل طوائف گیری اور گھریلو زندگی کا تماشہ

ڈیجیٹل طوائف گیری ایک ایسی جدید سماجی حقیقت بن چکی ہے جس نے انسانی وقار، عزت اور اخلاقیات کو پیسوں، شہرت یا وقتی فائدے کے بدلے فروخت کرنے کی روش کو فروغ دیا ہے۔ پہلے جسمانی آزادی کے سودے ہوتے تھے، مگر اب لوگ اپنی ذہنی، جذباتی اور اخلاقی حدود کو بھی ڈیجیٹل دنیا کے ہاتھوں بیچنے لگے ہیں۔ یہ صرف مالی فائدے تک محدود نہیں، بلکہ شہرت اور سوشل میڈیا کی دنیا میں نمایاں مقام حاصل کرنے کی غیر تحریری دوڑ ہے، جو لوگوں کو اپنی عزت نفس کو پسِ پشت ڈالنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ہر طرف سے زیادہ فالوورز، لائکس اور ویوز حاصل کرنے کا جنون سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

سوشل میڈیا کی اس دنیا میں نوجوان نسل خصوصاً سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی زندگی کو حقیقی زندگی سمجھ کر اس کا پیچھا کرتے ہیں اور اپنے فیصلے اسی بنیاد پر کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے، وہ یہ نہیں سمجھ پاتے کہ یہ مصنوعی دنیا ایک جھوٹا تاثر ہے جہاں ہر شخص اپنی زندگی کے صرف خوشنما پہلوؤں کو پیش کرتا ہے، جبکہ حقیقت میں ہر شخص مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرتا ہے۔ سوشل میڈیا پر مقبولیت کا یہ رجحان نہ صرف انفرادی سطح پر اخلاقی تنزلی کا باعث بن رہا ہے بلکہ مجموعی طور پر معاشرتی ڈھانچے کو بھی متاثر کر رہا ہے۔

اس ڈیجیٹل کلچر میں بڑے کارپوریٹ ادارے بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ایسے افراد کو جو سوشل میڈیا پر زیادہ مقبولیت حاصل کر لیتے ہیں، وہ اپنے مصنوعات کی تشہیر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس عمل میں وہ لوگ اپنی اصل شناخت کھو بیٹھتے ہیں اور صرف مادی فائدے کے لیے اپنے اصولوں سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ ان کے لیے پیسہ کمانا اور شہرت حاصل کرنا ہی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے، اور ان کی اخلاقی قدریں معدوم ہو جاتی ہیں۔

یہ رجحان ان معاشروں میں زیادہ نمایاں ہے جہاں مادی کامیابی کو سب کچھ سمجھا جاتا ہے اور اخلاقی اقدار کو پیچھے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں بھی یہ مسئلہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، جہاں لوگ سوشل میڈیا پر اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی دوڑ میں اپنی عزت اور وقار کا سودا کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ اس کلچر کا ایک سنگین پہلو یہ بھی ہے کہ لوگ اپنی ذاتی زندگی کو عوام کے سامنے لا کر، ہمدردی یا توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، چاہے اس کے نتیجے میں ان کی عزت نفس متاثر ہو یا ان کا ذہنی سکون برباد ہو۔

اس رویے کے نتیجے میں افراد کی ذہنی صحت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ مسلسل عوامی توجہ اور سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کا دباؤ افراد کو ذہنی دباؤ اور بے چینی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ وہ لوگ جو اپنی زندگی کے صرف خوشگوار لمحات کو سوشل میڈیا پر پیش کرتے ہیں، دوسروں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ ان کی زندگی میں کوئی مشکلات نہیں ہیں۔ یہ مصنوعی تصویر لوگوں کے ذہنوں میں یہ غلط تاثر پیدا کرتی ہے کہ خوشی اور کامیابی صرف ان لوگوں کے پاس ہوتی ہے جو سوشل میڈیا پر مقبول ہیں، حالانکہ ہر شخص اپنی زندگی میں چیلنجز کا سامنا کرتا ہے۔ یہ رجحان خاص طور پر نوجوان نسل کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے، جو اس مصنوعی دنیا کو حقیقت سمجھ بیٹھتی ہے۔

سوشل میڈیا کے اس بے تحاشا استعمال نے خاندانی اور گھریلو زندگیوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ لوگ اپنے نجی معاملات، ذاتی لمحات اور خاندانی مسائل کو اس طرح سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں جیسے یہ کوئی تماشا ہو۔ بچوں کی معصومیت، ماں باپ کے درمیان کی گفتگو، اور میاں بیوی کے نجی لمحات سب کچھ سوشل میڈیا کی زینت بن چکا ہے۔ اس کا مقصد بظاہر تو زندگی کی جھلکیاں دکھانا ہوتا ہے، مگر اکثر اس کے پیچھے شہرت اور توجہ حاصل کرنے کی خواہش کارفرما ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رشتوں کی اصل قدر اور حرمت ختم ہو جاتی ہے، اور لوگ اپنے ہی گھر کے معاملات کو تماشہ بنا کر پیش کرنے لگتے ہیں۔

اس کے علاوہ، سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی زندگی کا ایک اور نقصان یہ ہے کہ لوگ اپنی زندگی کی بہترین اور خوشگوار لمحات کو بڑھا چڑھا کر دکھاتے ہیں، جبکہ مشکلات اور چیلنجز کو چھپا لیتے ہیں۔ اس مصنوعی زندگی کو دیکھ کر دوسرے لوگ اپنی زندگی کا موازنہ کرتے ہیں اور یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ان کی زندگی ناکام ہے، کیونکہ وہ ان چمک دار تصویروں کی طرح اپنی زندگی کو مثالی نہیں بنا پاتے۔ یہ رویہ معاشرتی دباؤ اور ذہنی تناؤ کا باعث بنتا ہے، خاص طور پر نوجوانوں میں، جو سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی زندگی کو حقیقی زندگی سمجھتے ہیں۔

اس مصنوعی زندگی کی نمائش نے خاندانی رشتوں کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ رشتوں کے درمیان کی نجی باتیں، گھریلو معاملات اور ذاتی گفتگو سب کچھ عوام کے سامنے آ جاتا ہے، جس سے رشتوں کی حرمت اور عزت مجروح ہوتی ہے۔ ماں باپ اور بچوں کے درمیان کی گفتگو بھی اب سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہے، جس سے رشتوں کی اصل اہمیت ختم ہو رہی ہے۔ یہ صورتحال ایک سنگین سماجی مسئلہ بن چکی ہے، جہاں لوگ اپنے نجی معاملات کو عوامی تماشے میں تبدیل کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا کے اس رویے نے معاشرتی اور اخلاقی اقدار کو کمزور کر دیا ہے۔ نوجوان نسل کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر چیز کو سوشل میڈیا پر دکھانا ضروری نہیں ہوتا، اور زندگی کی حقیقی خوشی اور کامیابی سوشل میڈیا کی دنیا میں نہیں بلکہ حقیقی زندگی میں پائی جاتی ہے۔ اگر ہم اپنی ذاتی زندگی کی حرمت کا خیال نہیں رکھیں گے اور سوشل میڈیا کے اس بے تحاشا استعمال کو کنٹرول نہیں کریں گے، تو ہم نہ صرف اپنی ذاتی زندگی کو تباہ کر رہے ہوں گے بلکہ معاشرتی استحکام کو بھی نقصان پہنچا رہے ہوں گے۔

اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمیں سوشل میڈیا کے استعمال میں اعتدال پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ والدین کا کردار یہاں نہایت اہم ہے، کیونکہ وہی اپنے بچوں کو اس بات کا شعور دے سکتے ہیں کہ ہر چیز کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ والدین کو اپنے بچوں کو یہ سکھانا چاہیے کہ حقیقی خوشی اور کامیابی سوشل میڈیا کی دنیا میں نہیں بلکہ حقیقی زندگی میں پائی جاتی ہے۔ انہیں اپنے بچوں کو یہ بھی سمجھانا چاہیے کہ رشتوں کی حرمت اور عزت کا ایک درجہ ہوتا ہے اور اسے عوامی تماشے کی صورت میں پیش کرنا ایک اخلاقی اور معاشرتی جرم ہے۔

اس کے علاوہ، ہمیں اپنی ذاتی زندگی کے ہر پہلو کو عوامی نہ بناتے ہوئے اس کی قدر کرنی چاہیے۔ سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی زندگی اکثر مصنوعی ہوتی ہے اور اس کا مقصد صرف شہرت اور توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ حقیقی خوشی اور کامیابی اندرونی سکون اور اخلاقی اقدار پر مبنی ہوتی ہے، نہ کہ سوشل میڈیا کے فالوورز اور لائکس پر۔ اگر ہم اپنی زندگی کو سوشل میڈیا کی چکاچوند سے دور رکھ کر حقیقی زندگی پر توجہ دیں گے، تو ہم اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں گے اور معاشرتی استحکام کو فروغ دے سکیں گے۔

سوشل میڈیا کے اس بے لگام استعمال کا حل یہی ہے کہ ہم اپنی ذاتی زندگی کی حرمت کا احترام کریں اور اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے سے گریز کریں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو سوشل میڈیا کے صحیح اور غلط استعمال کے بارے میں آگاہ کریں اور انہیں سکھائیں کہ ہر چیز کو دنیا کے سامنے لانا ضروری نہیں ہوتا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ زندگی کی اصل خوشی اور کامیابی اندرونی سکون اور رشتوں کی حرمت میں پوشیدہ ہے، اور سوشل میڈیا کی مصنوعی دنیا میں پائی جانے والی خوشی صرف وقتی اور فانی ہوتی ہے۔

اگر ہم سوشل میڈیا کے استعمال میں اعتدال پیدا کریں گے اور اپنی زندگی کی حقیقی قدر کو پہچانیں گے، تو ہم نہ صرف اپنے رشتوں کو بہتر بنا سکیں گے بلکہ اپنی ذاتی زندگی کو بھی محفوظ رکھ سکیں گے۔

Check Also

Hasil e Mutalia

By Najeeb ur Rehman