Befaiz Insan Na Banein
بے فیض انسان نہ بنیں
زندگی میں ایک کلیہ بنا لیں کہ کچھ بھی بن جائیں مگر بے فیض انسان نہ بنیں، کیونکہ بے فیض ہونے کا مطلب صرف اپنے آپ کو دیکھنا اور دوسروں کی ضرورتوں اور جذبات کو نظر انداز کرنا ہے۔ یہ بات ہمارے معاشرے میں عام ہوتی جا رہی ہے کہ رشتے، تعلقات، اور لوگوں کی زندگیوں کا مرکز و محور زیادہ تر ذاتی مفادات، ضرورتوں اور شرائط پر مبنی ہو چکا ہے۔ ہر شخص ایک دوسرے سے اس نیت سے ملتا ہے کہ اسے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے، اور جیسے ہی اس فائدے کا امکان ختم ہو جائے، وہ رشتہ یا تعلق بے معنی سمجھا جاتا ہے۔
یہ رویہ نہ صرف ہمارے سماجی ڈھانچے کو کمزور کر رہا ہے بلکہ انسانیت اور خلوص کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ جہاں کبھی رشتے محبت، عزت، اور اعتماد پر قائم ہوتے تھے، اب وہاں ضرورتوں اور مفادات نے جگہ لے لی ہے۔ ایک دوست دوسرے دوست سے اس لیے جڑا ہوتا ہے کہ وہ اسے کسی مقصد کے لیے استعمال کر سکے۔ خاندان کے افراد بھی ایک دوسرے سے وہی توقعات رکھتے ہیں جو ان کے مفاد میں ہوں۔ آج کا انسان یہ سوچتا ہے کہ جو شخص اس کے کسی کام کا نہیں، وہ اس کی زندگی میں بے معنی ہے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ ہم ایسے رشتوں اور تعلقات کا سامنا کیسے کریں، جہاں ہر چیز ایک شرائط پر مبنی ہو؟ اس کا جواب ہمیں اپنے اندر تلاش کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بے فیض انسان بننا انسانیت کے خلاف ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے رشتے اور تعلقات خلوص پر مبنی ہوں، تو ہمیں سب سے پہلے خود خلوص کی راہ اپنانا ہوگی۔ ہم کسی کے لیے فیض کا باعث بننے کی کوشش کریں، بغیر اس کے کہ ہمیں کیا ملے گا۔
آج کے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ زیادہ تر تعلقات کا دارومدار مالی حیثیت، سماجی مرتبہ، اور دنیاوی مفادات پر ہوتا ہے۔ لوگ یہ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کے ساتھ وقت گزارا جائے اور کس سے تعلق بڑھایا جائے۔ ایسے ماحول میں جہاں ہر شخص اپنی ذات اور مفاد میں گم ہو، ہمیں اس روش سے بچنا ہوگا اور ایک ایسی زندگی گزارنی ہوگی جو دوسروں کے لیے فائدہ مند ہو۔ چاہے ہم کوئی بھی پیشہ اپنائیں، کوئی بھی عہدہ حاصل کریں، یا کسی بھی شعبے میں کامیابی حاصل کریں، ہماری زندگی کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم کسی نہ کسی طرح دوسروں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آجکل کے رشتے صرف ضرورت اور شرائط پر مبنی ہیں۔ والدین اپنے بچوں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ان کے بڑھاپے کا سہارا بنیں گے، جبکہ بچے یہ سوچتے ہیں کہ وہ والدین کے ساتھ صرف اس وقت تک ہیں جب تک وہ انہیں مالی اور جذباتی مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ اسی طرح دوستیاں بھی ایک مقصد کے تحت ہوتی ہیں، جہاں لوگ ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانے کے چکر میں رہتے ہیں۔
اس صورتحال میں ہمیں اپنی ذہنیت کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے تعلقات میں محبت، اعتماد، اور اخلاص ہو، تو ہمیں اپنی سوچ اور رویے کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں دوسروں کی ضرورتوں اور جذبات کا احترام کرنا ہوگا اور انہیں صرف ایک ذریعہ یا وسیلہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ رشتے ضرورتوں کے تحت نہیں بلکہ خلوص اور محبت کے تحت ہونے چاہئیں۔
دوسروں کے لیے فیض کا باعث بننے کا مطلب صرف مالی یا مادی امداد نہیں ہے، بلکہ جذباتی اور ذہنی سکون دینا بھی ایک بڑا فیض ہے۔ اگر ہم کسی کے دکھ میں شریک ہوتے ہیں، اس کی مدد کے لیے اپنا وقت نکالتے ہیں، یا کسی کو درست رہنمائی فراہم کرتے ہیں، تو یہ بھی ایک بڑی خدمت ہے۔ ہمیں اپنے اندر یہ سوچ پیدا کرنی چاہیے کہ ہماری زندگی کا مقصد صرف اپنا فائدہ اٹھانا نہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی کچھ کرنا ہے۔
زندگی میں ایک کلیہ اپنائیں کہ کچھ بھی بن جائیں، مگر بے فیض انسان نہ بنیں۔ اپنے علم، ہنر، اور وسائل کو دوسروں کے فائدے کے لیے استعمال کریں۔ یہ دنیا فانی ہے اور یہاں کی کامیابیاں عارضی ہیں، مگر جو کچھ ہم دوسروں کے لیے کرتے ہیں، وہ ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی میں برکت ہو اور ہمارے تعلقات مضبوط ہوں، تو ہمیں دوسروں کے لیے فائدہ مند بننا ہوگا۔
اس دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے آپ میں گم رہتے ہیں اور صرف اپنی ضروریات کو پورا کرنے کی فکر کرتے ہیں، مگر جو لوگ دوسروں کے لیے جیتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں، وہی لوگ حقیقی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہماری زندگی کا اصل مقصد یہ نہیں کہ ہم دنیا میں کتنا پیسہ کماتے ہیں یا کتنی شہرت حاصل کرتے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کے لیے کیا کرتے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگی میں یہ کلیہ اپنا لیں کہ چاہے ہم کسی بھی مقام پر پہنچ جائیں، کسی بھی شعبے میں کامیابی حاصل کریں، مگر کبھی بھی بے فیض انسان نہ بنیں۔ زندگی کا اصل مقصد دوسروں کے لیے فائدہ مند ہونا ہے۔ ہمیں اپنے رشتوں اور تعلقات میں اخلاص، محبت، اور فیض کو فروغ دینا چاہیے، کیونکہ یہی وہ چیزیں ہیں جو ہمیں حقیقی خوشی اور سکون فراہم کرتی ہیں۔
آخر میں، یہ کہنا ضروری ہے کہ زندگی بہت مختصر ہے اور ہمیں ہر لمحے کو قیمتی بنانا چاہیے۔ ہمیں اس دنیا میں ایسے اعمال کرنے چاہئیں جو نہ صرف ہمارے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی فائدہ مند ہوں۔ اگر ہم اپنی زندگی کو دوسروں کے لیے فائدہ مند بناتے ہیں، تو یہی ہماری زندگی کی اصل کامیابی ہوگی۔