Thursday, 10 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shahzad Malik
  4. Bandhan Jeevan Ka

Bandhan Jeevan Ka

بندھن جیون کا

ہمسایوں کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے بعد اگرچہ گیارہ بجے تک گھر لوٹ آئے تھے مگر تین گھنٹے کی مختصر تقریب نے ہی تھکا ڈالا آج کل کی شادیوں میں یہی ہوتا ہے سارا دن تیاری میں بیت جاتا ہے اور سات سے دس بجے تک کی وقت کی پابندی کی وجہ سے بھاگم بھاگ، شادی ہال پہنچیں بمشکل بیٹھ کر سانس درست کریں تو کھانے کا اعلان ہو جاتا ہے اس سے فارغ ہوتے ہی رخصتی کا غلغلہ اور پھر گھر واپسی! اتنے میں ہی اتنا تھک جاتے ہیں کہ لباس تبدیل کرنا بھی دوبھر ہوتا ہے۔

یوں شادی جس کا مطلب خوشی ہوتا ہے فضول رسومات کا مجموعہ تو ہوتی ہے مگر اس میں سے خوشی کا عنصر غائب ہو چکا ہے اس کی بجائے تھکاوٹ غالب رہتی ہے۔ ایسے میں مجھے بچپن میں اپنے خاندان کی شادیاں یاد آتی ہیں جن میں شرکت کرکے بھرپور لطف اور خوشی محسوس ہوتی تھی۔ ہمارا خاندان قیام پاکستان کے وقت بھارتی پنجاب سے ہجرت کرکے گوجرانوالہ کے نواحی گاؤں میں آباد ہوا تھا بڑی زمین داریاں چھوڑ کر آنے والوں کو پورے تو نہیں مگر خاصے بڑے رقبے الاٹ ہو چکے تھے۔

زرخیز زمین میں دھان اور گندم کی فصلوں نے چند ہی سالوں میں بےسر و سامانی کو خوشحالی میں بدل دیا تھا۔ جو بچے جوان ہو گئے تھے بزرگ ان کی شادیوں کا سوچ رہے تھے۔ انہی جوانوں میں ہمارے پھوپھی ذاد بھائی تھے جن کا نام شادی کی فہرست میں تھا لڑکی ڈھونڈنے کا کوئی جھنجٹ نہ تھا بچپن سے ہی خاندان میں منگنی ہو چکی تھی۔ اس وقت ابھی لڑکیاں تو کیا لڑکے بھی بزرگوں کے فیصلوں کے خلاف پر نہیں مارتے تھے دونوں گھرانوں نے آپس میں مشورہ کرکے دھان کی فصل اٹھانے کے بعد شادی کا فیصلہ کر لیا۔

پھوپھی جان گاؤں میں رہتی تھیں اور ہم شہر میں تھے۔ دھان کی فصل بیچ کر پھوپھا جان نے ایک موٹی رقم بیگ میں ڈالی اور پھوپھی جان کے ہمراہ شہر میں ہمارے گھر آ گئے اور بری کی تیاریاں ادھر رہ کر ہی کی گئیں۔ خوب رونق رہی روز بازار جاتے کبھی کپڑے کبھی زیور کبھی جوتے اور شادی کے باقی لوازمات خریدے گئے۔ تیاری مکمل ہوگئی تو وہ گاؤں سدھارے ان کے جانے کے ایک ہفتے بعد خاندانی نائی کے ہاتھ دعوت نامہ آیا۔

دعوتی کارڈ چھپوانے کا رواج نہیں تھا اس کی بجائے مہمانوں کی لسٹ کے ساتھ چھوہارے نائی کو دئیے جاتے وہ لسٹ کے مطابق ہر گھر میں جاتا لڑکی کی شادی کے سات اور لڑکے کی شادی کے پانچ چھوہارے دیتا اور لسٹ پر سے اس گھر کا نام کاٹ دیتا۔ اگر دونوں گھروں سے بلاوہ ہوتا تو بارہ چھوہارے دیتا گھر والے حسب توفیق اسے اس کا لاگ (نیگ) دیتے۔ جب وہ پوری لسٹ کے مطابق بلاوہ دے آتا تو اس کی جیب میں اچھی خاصی رقم ہوتی اور وہ خوشی خوشی واپس آتا۔

پھوپھی جان کی تاکید تھی کہ کم از کم دس دن پہلے ضرور آنا ہے ہم نے بھی خوب تیاری کے بعد گاؤں کی راہ لی۔ ہمارے زیادہ تر رشتہ دار گاؤں میں ہی رہتے تھے ان کی اولادوں میں سے جو بچوں کی تعلیم یا روزگار کے سلسلے میں شہروں میں مقیم تھے وہ بھی آ کر اپنے اپنے گھروں میں ٹھہر جاتے تھے۔ ہمارے دادا دادی اور پھوپھی جان ایک ہی بڑے سے گھر میں رہتے تھے۔ ہم پہنچے تو شادی کی گہما گہمی شروع ہو چکی تھی۔

زیادہ قریبی عزیز آ چُکے تھے لیکن مزے کی بات یہ تھی کہ گھر والے بجائے اس کے کہ مہمان داری کی مشقت میں پڑتے سب مرد و خواتین کام کاج چھوڑ کر مہمانوں سے گپ شپ کرتے گھر اور مہمان داری کی تمام ذمہ داری ہماری نائن رسولاں اور اس کی بہو بیٹیاں اٹھا لیتیں۔ رسولاں بہت موٹی تھیں ان کے لئے سپیشل پیڑھی ہوا کرتی تھی وہ صبح ہی اس پیڑھی کو چولہے کے پاس رکھ کر مہمانوں کے لئے ناشتہ بنانے بیٹھ جاتیں۔

دیسی گھی کا برتن اور گندھے آٹے کی پرات اپنے پاس رکھ لیتیں پہلے انڈوں کا خاگینہ تیار کرتیں پھر بے حد مزے دار خستہ پراٹھے بنا بنا کر سب کو آوازیں دے دے کر کھلاتی جاتیں جو آتا اس کے لئے تازہ پراٹھا بنتا نو دس بجے تک ناشتہ چلتا رہتا۔ گھر کی خواتین کھانے پینے کی طرف سے بے فکر رہتیں دوپہر کو ماسی رسولاں کی بیٹی ہانڈی روٹی کرتی اس دور میں ہمارے ہاں شادی سے پہلے لڑکا لڑکی کی مایوں سے لے کر شادی سے ایک شام پہلے تک ثابت ماش ضرور پکائے جاتے دوسرا کوئی بھی سالن ہوتا مگر ساتھ میں ماش پکنا لازمی ہوتے۔

اس کی منطق مجھے کبھی سمجھ میں نہیں آئی رسولاں کی بیٹی اتنے مزے دار ثابت ماش پکاتی کہ ہم لوگ اور سب کچھ چھوڑ کر وہی کھاتے۔ تندور کی گھر کے مکھن سے چپڑی روٹی کے ساتھ اس کا ذائقہ ہی نرالا ہوتا تھا۔ دوپہر میں خاندان کی بہو بیٹیاں شادی والے گھر جمع ہو کر بری کے جوڑے ٹانکتیں ماسی رسولاں اور ان کے گھر کی خواتین شادی کے گانے گا کر خوب رونق لگاتیں ساتھ ساتھ کھانا پینا بھی چلتا رہتا۔ شادی کے دنوں میں گھر کی خواتین تھکنے کی بجائے خوب آرام کیا کرتیں۔

گاؤں کے باہر مگر بالکل نزدیک بڑی سی حویلی سارے خاندان کے مشترکہ مردانے کے طور پر استعمال ہوتی تھی یہ حویلی بیک وقت چوپال، شادی گھر اور مہمان خانہ تھی۔ بڑے سے صحن کے درمیان پیپل کا گھنا اور پھیلا ہوا درخت تھا مردوں کا گھروں میں رہنے کا رواج نہیں تھا کام کاج سے فارغ ہو کر سب یہاں درخت کے سائے میں چارپائیاں بچھا کر بیٹھتے اور گپ شپ لگاتے رات کے کھانے سے پہلے گھروں میں جاتے تھے۔

شادی کے دنوں میں سب مرد حویلی میں جمع رہتے ملازم بزرگوں کے حقے پانی کا خیال رکھتے تھے خوب رونق ہوتی۔ پھوپھی زاد بھائی کو شادی سے پانچ دن پہلے مایوں بٹھایا گیا ان کے کھیتوں پر جانے پر پابندی لگ گئی ماسی رسولاں ان کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھنے لگیں۔ مایوں کے دن سے ماسی رسولاں کی بہوگاؤں کی خواتین کو رات کو گانے کی دعوت دے کر آئی جب رات ہوئی تو گاؤں کی خواتین بڑی بڑی تھالیوں میں گندم یا چاول کے اوپر گڑ کی ڈلیاں رکھ کر لائیں اور پھوپھی جان کو پیش کیں۔

انہوں نے بخوشی قبول کیں اس کو روٹی لانا کہا جاتا تھا بعد میں یہ سب کسی ضرورتمند کو دے دیا جاتا تھا۔ گھر کے بڑے دالان میں فرش پر گدے اور چادریں بچھا کر بیٹھنے کا انتظام تھا وہاں سب کو بٹھایا گیا لڑکے کی شادی تھی تو گھوڑیاں گائی گئیں۔ گاؤں کی خواتین نے اس وقت کے مروجہ لڑکے کی شادی کے خوشی کے گیت گا کر سماں باندھ دیا بہت مزہ آیا دس گیارہ بجے یہ محفل برخواست ہوئی۔ پانچ دن یہ خواتین رات کو گھوڑیاں گانے آتی رہیں لیکن روٹی صرف پہلے دن ہی لانی ہوتی تھی۔

شادی سے ایک دن پہلے مہندی تھی لڑکوں کو مہندی لگائی تو نہیں جاتی تھی مگر گھر کی خواتین نے تو لگانی ہوتی ہے۔ دلہا دلہن کی مہندی اپنے اپنے گھروں میں ہوتی تھی پھوپھی جان کے گھر بڑی بڑی پراتوں میں مہندی گھولی گئی گھر کی سب خواتین نے مہندی لگائی کسی نے خود اور کسی نے ماسی رسولاں کی بہو بیٹیوں سے لگوائی۔ رات کو جب گانے والیاں آئیں تو ہر کسی کو پیالیاں بھر بھر کر گھلی ہوئی مہندی دی گئی۔

اگلے دن بارات تھی بھائی صاحب صبح ہی صبح ٹیوب ویل پر نہا آئے۔ دس بجے نچلی منزل کی بیٹھک میں سہرا بندی ہوئی بھائی صاحب شلوار قمیض پر شیروانی پہن کر کرسی پر بیٹھ گئے۔ نائی نے پگڑی پہنا کر اس پر سہرا باندھ کر اپنا لاگ لیا۔ ہمارے ابا جی نے بڑے ماموں کی حیثیت سے گلے میں تلے والا ہار پہنایا۔ جب دلہا میاں تیار ہوگئے تو گھر کی ڈیوڑھی میں سجا ہوا گھوڑا لایا گیا دلہا صاحب سوار ہوئے بہنوں نے باگ پکڑائی کا نیگ لیا گاؤں کی خواتین نے بارات چڑھنے کے گیت گائے اور پھوپھا جان گھر کے باقی مردوں کے ساتھ گھوڑے کو باہر گلی میں لے گئے وہاں خاندان کے سب مرد جمع تھے۔

ہمارے ہاں باجے گاجے کا رواج نہیں تھا نہ ہی نوٹ نچھاور کئے جاتے تھے بلکہ صدقے کے نام پر اچھی خاصی رقم مستحق لوگوں میں تقسیم کر دی گئی۔ سب اکٹھے ہوگئے تو بارات حویلی کی طرف چلی آدھا راستہ طے ہوگیا تو دلہن کے ذیادہ قریبی لوگ بارات سے الگ ہو کر پہلے ہی حویلی پہنچ گئے تاکہ بارات کا استقبال کر سکیں یہ بڑا خوبصورت منظر تھا۔ پہلے سب لوگ دلہا کی بارات لے کر چلے جو کہ ان میں سے کسی کا بھانجا کسی کا بھتیجا یا کسی اور رشتے سے قریبی تھا اس کے بعد دلہن کی طرف شامل ہوگئے جو سب کے ساتھ اسی طرح کے پیارے رشتوں سے جڑی تھی۔

بارات گھر سے نکلی تو گھر کی ساری خواتین گلی میں ہی واقع دلہن کے گھر چلی گئیں آخر وہ ہم سب کی بھی تو اپنی تھی نکاح کے بعد مردوں کو حویلی میں اور خواتین کو گھر میں کھانا کھلایا گیا۔ دلہا کو اندر بلا کر سلامی دی گئی اور سہ پہر میں دلہن کی ڈولی گھر کی ڈیوڑھی میں آ گئی۔ قریبی عزیز مردوں نے گھر کے اندر آ کر دلہن کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار دیا باقی سب گلی میں کھڑے ہوگئے۔ دلہن ڈولی میں بیٹھ گئی تو بھائی کندھوں پر اٹھا کر گلی میں لے آئے دلہا کا گھر تو چار قدم پر تھا اس لئے بھائیوں نے حویلی تک کا چکر لگا کر واپس پھوپھی جان کی ڈیوڑھی میں ڈولی کو اتار دیا اور بہن کے سر پر پیار دے کر باہر نکل گئے۔ اب ہمارے گھر کی خواتین نے دلہن کا منہ میٹھا کرا کے ڈولی سے نکالا اور دالان میں بٹھا دیا۔

اگلے دن گاؤں کی خواتین کے لئے دلہن کی رونمائی تھی ساتھ ولیمہ بھی تھا اس وقت تک ولیمے کا کھانا خاندان اور گاؤں والوں کے گھروں میں بھجوایا جاتا تھا یہ کھانا زردہ پلاؤ اور قورمہ پر مشتمل ہوتا تھا اور دیسی گھی میں تیار ہوتا تھا دوپہر تک کھانا بھجوایا جا چکا۔ دلہن کو تیار کیا گیا کھانے سے فارغ ہو کر خاندان کی خواتین خوب تیار ہو کر آئیں اور دلہن کو سلامی دی گئی گاؤں کی خواتین نے بھی دلہن دیکھ کر حسب توفیق سلامی دی۔ شام کو دلہن والے اسے لینے آئے بھائی صاحب کو بھی ساتھ ہی لے کر گئے۔ تیسرے دن دلہن کے گھر مکلاوے کی دعوت تھی جس کے بعد ہماری دلہن بھابی سسرال آ گئیں اور شادی کا اختتام ہوگیا دو دن بعد ہم واپس شہر آ گئے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ہمارے خاندان کی شادیوں میں بھی بڑی تبدیلی آ گئی گاؤں جا کر کی جانے والی شادیوں کا انداز وہی رہا البتہ ڈولی کی جگہ کار نے لے لی۔ حویلی کی عمارت بڑی خوبصورت بن گئی کرسیاں میزیں اور اچھی کراکری آ گئی۔ شہروں میں رہنے والے اب شادیاں بھی شہروں میں ہی کرنے لگے ہیں عرصۂ دراز سے کبھی گاؤں جا کر کوئی شادی نہیں دیکھی۔

Check Also

Uzr e Gunah Badtar Az Gunah?

By Mojahid Mirza