Thor Zada Dil (3)
تھور زدہ دل (3)
یقین کرو مدثر جتنی دیر وہ میرے پاس رہتی تھی میرا درد تھما رہتا تھا۔ اس کی موجودگی سے میں ایک عجیب سرور و سکون محسوس کرتا تھا۔ میں نے کہا کہ جیسے تمہیں اسکی قربت اچھی لگتی تھی بالکل ایسے ہی اللہ کے چاہنے والوں کو اللہ کے بلانے پر اس سے ملنا اچھا لگتا ہے۔ جو جتنا اللہ کو چاہتا ہے اتنی ہی بے قراری سے اس سے ملنے لپکتا ہے۔ نماز بندے کا اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا ذریعہ ہے۔ اب آندرے اکثر مذہب سے متعلق مختلف سوال جواب کرتا رہتا تھا۔
ایک دن نہ جانے کس بات پر میں نے اس کو حضور ﷺ کے طائف کے سفر مبارک اور اس کی سختیاں اور اللہ کے حکم سے پہاڑوں کے فرشتوں کا نافرمانوں پر عذاب کا کوڑا برسانے کا حکم لیکر حاضر ہونا مگر آپ رحمت العالمین کا اپنے دشمنوں کے لئے دعائے خیر کرنے کا قصہ سنایا۔ وہ تو جیسے میسمرائیز ہو گیا۔ پھر اس کی ایک ہی فرمائش ہوتی کہ اپنے سینٹ کا قصہ سناؤ۔ ایک رات کھانے کے بعد اس نے کہا باقی کتابوں کو گولی مارو مجھے بس اس سینٹ کا قصہ سناؤ۔
میں نے بتایا کہ وہ سینٹ نہیں ہمارے آخری پیغمبرؐ ہیں۔
وہ تو روز بروز آپ ﷺ کے سحر میں گرفتار ہوتا جا رہا تھا اور ان کی ذات گرامی سے اس کا انس بڑھتا جا رہا تھا۔ آندرے اب نماز میں بھی دلچسپی لینے لگا تھا، جیسے ہی اذان ہوتی، سب کام رکوا دیتا اور کہتا جاؤ تمہارے ربّ نے تمہیں پکارا ہے۔ ایک دن اس نے کہا کہ میں تو کسی کو نہیں مانتا تھا مگر جب تمہارا رسول اتنا پیارا ہے تو تمہارا خدا کتنا پیارا ہو گا؟
میں نے کہا بےشک! کیونکہ وہ بہت شفیق اور رحیم و کریم ہے۔ دیکھ لو اس کو تمہارا اتنا خیال ہے کہ مجھے بنگلہ دیش سے اٹھا کے جرمنی کے اس دور افتادہ گاؤں میں تمہاری تیمار داری کے لئے بھیج دیا۔ یہ سننا تھا کہ اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنا شروع ہو گئے، پھر آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ جب ذرا اس کا دل ٹھہرا تو کہنے لگا کہ میں اس خدا مہربان پر ایمان لایا مدثر مجھے مسلمان بنا دو۔
میں خدا کی کارسازی پر دم بخود تھا۔ مجھے آندرے پر رشک آ رہا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا چنیدہ تھا۔ میں آپ کو کیا بتاؤں کے اس کو نماز کا کس قدر شوق تھا وہ کس جذب سے اپنی ویل چیئر پر بیٹھ کر میرے پیچھے نماز پڑھتا تھا۔ اس نے سورۃ فاتحہ کا جرمن ترجمہ رٹ لیا تھا اور کلمہ صحیح طریقے سے عربی میں پڑھ لیتا تھا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میری ان دنوں کی پڑھی گئی نماز آندرے کے صدقے ضرور قبول ہوئی ہونگی۔
پھر ایک رات اس کا انتقال ہو گیا، مرنے سے پہلے وہ اپنی دکان اور مکان میرے نام کر گیا تھا۔ میں نے دونوں چیزیں بیچ کر اس سے حاصل ہونے والی رقم جرمنی کی اسلامی کونسل کے حوالے کر دی۔ آندرے جس کا اسلامی نام ابراہیم تھا اس کی خواہش تھی کہ وہ مسجد بناتا اور اس مسجد کا نام "مسجد محمد" رکھتا۔ اس کے جزبے کی سچائی تھی کہ اس کا پیسہ مسجد کی تعمیر میں ہی خرچ ہوا۔ پھر میرا دل جرمنی سے ٹوٹ گیا ویسے بھی مجھے گھر سے نکلے تین سال ہو رہے تھے، بابا اور بچے بھی یاد آ رہے تھے سو میں بابا صاحب کی قدم بوسی کے لیے لوٹ آیا۔
ڈھاکہ بہت بدل گیا تھا۔ کمرشلائزیشن ڈھاکہ کی قدرتی خوبصورتی کو نگل رہی تھی مگر ہر شخص نفع نقصان سے بے پروا ہو کر پیسہ کمانے کی ڈور میں لگا تھا۔ اب میرے صرف تین فوکل پوائنٹ تھے، بابا صاحب، دونوں بچے اور بزنس۔ جلیل نے تو نہیں مگر خلیل نے مجھے ٹف ٹائم دیا۔ وقت لگا مگر دونوں بچے سنبھل بھی گئے اور بہتر بھی ہو گئے۔ سچی بات ہے ان چودہ پندرہ سالوں میں پہلی بار یکسوئی اور سکون نصیب ہوا۔
زندگی سبک رفتاری سے روٹین پر چل پڑی۔ شمسہ اور میرے تعلقات ویسے ہی تھے سرد اور بے جان کہ میرے دل کی سرزمین تو اب شور زدہ تھی۔ سیم اور تھور والی۔ جس پر پھیلے بے اعتنائی کے نمک کی وجہ سے محبت کی کوئی کونپل نہیں پھوٹ سکتی تھی کہ میرا دل ایک لق و دق بنجر تھا۔ وقت پنکھ لگا کر اڑ گیا۔ دونوں بیٹے جوان ہو کر فارغ التحصیل ہو گئے تھے۔ جلیل نے معاشیات میں ماسٹرز کیا اور گھر کے کاروبار کو سنبھال لیا۔ خلیل نے میڈیسن پڑھی۔
کچھ عرصے کی نوکری کے بعد اس کا اپنے دوست کے ساتھ مل کر ہسپتال بنانے کا ارادہ تھا۔ اپنی اپنی شادیوں کے فیصلے کی دونوں لڑکوں کو میری طرف سے مکمل آزادی تھی کہ میں ٹوٹے دل کی کہانی دھرانا نہیں چاہتا تھا۔ جس تنہائی کا بن باس میں نے کاٹا اور جو الم میں نے جھیلے ہیں خدا کرے کہ وہ کبھی ان کا نصیب نہ ہوں۔ جلیل نے یاسمین کی چھوٹی نواسی کی ہمراہی کی خواہش کا اظہارِ کیا، جو کہ دونوں گھروں کے لئے بہت خوشگوار فیصلہ تھا۔
خلیل کی طرف سے ذرا مشکل ہوئی کیونکہ وہ اپنی کلاس فیلو پونم سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ میں نے کہا مجھے اعتراض نہیں مگر میں خدا کے حرام کو حلال نہیں کر سکتا، لہٰذا اگر پونم مسلمان ہو جاتی ہے تو میرے دل اور گھر دونوں کے دروازے اس پر کھلے ہیں۔ پونم کے والدین تو راضی نہ ہوئے پر چڑھی ندی پر کون بند باندھ سکا ہے۔ پونم کلمہ پڑھ کر حاجرہ ہو گئی اور اس طرح دونوں بھائیوں کی شادی بخیر و خوبی انجام پائی۔
وقت اور آگے سرکا اور میں نے بھی بابا صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دونوں بھائیوں میں جائیداد بانٹ دی۔ ویسے بھی میرا اب کچھ خاص کام تھا نہیں ڈھاکہ میں، میری وحشت نے پھر مجھے مہمیز کیا سو میں نے دوبارہ رخت سفر باندھا اور برلن آ گیا۔ ڈھاکہ کا چکر لگتا رہا۔ خلیل اور جلیل اپنی زندگیوں کو خوش اسلوبی سے مینج کر رہے تھے۔ اس اثناء میں شمسہ بھی عدم کو سدھاریں۔ ان کا عدم یا وجود میری زندگی میں کوئی معنی نہیں رکھتا تھا سو جزباتی طور پر کوئی تلاطم نہیں آیا۔ ہاں میں تدفین کے لیے ڈھاکہ ضرور آیا کہ ڈولی پر لایا تھا اور ڈولے پہ رخصت کیا۔
معراج میرا پہلا پوتا تھا اور ہو بہو بابا صاحب کی کاپی ہونے کی وجہ سے میرے دل کے بہت قریب تھا۔ میں نے یہاں ایک چلتا ہوا چھوٹا سا گروسری اسٹور خریدا تھا مگر اس میں اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت ڈالی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اب میرے مختلف شہروں میں چار اسٹور تھے۔ جانے کیا بات تھی کہ میری وہی مثل تھی کہ مٹی کو ہاتھ لگاؤ تو سونا۔ میری آمدنی کا نصف سے زیادہ حصہ چیرٹی میں جاتا کہ مجھ اکیلے کو پیسوں کا کیا کرنا تھا اور یہ یقیناً اسی صدقہ و خیرات کی برکت تھی کہ میرے پاس پیسے رکھنے کی جگہ نہ تھی۔
اب پچھتر سال کی عمر میں میں تھک چلا تھا اور مجھے اپنی مٹی کھینچ رہی تھی لہٰذا میں نے جرمنی کو خدا حافظ کہا اور اپنی موت کو خوش آمدید کہنے کے لیے اپنے سنار بنگال لوٹ آیا۔ سلہٹ کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک ہونے کی آرزو لے کر۔ یاد تھی یا رولر کوسٹر کی سواری، چشم زدن میں پوری زندگی آنکھوں میں گھوم گئ۔ شام میں مغرب سے تھوڑا پہلے میں ڈرائیور کے ساتھ معراج کے دیے گئے پتے پر روانہ ہوا۔ وہ پتہ بھی کیا تھا گویا پینڈورا باکس ہی تھا۔
مجھے تاج محل روڈ جانا تھا۔ میں نے ڈرائیور سے کہا کہ ایوب گیٹ کے بجائے اورنگزیب روڈ سے چلے۔ رحمان چچا کا گھر اب بالکل بدل گیا تھا اور ان کے گیٹ کے پاس عمر رسیدہ گل مہر اب بھی وقت کے مقابل کھڑا تھا۔ زندگی کتنی آگے چلی جاتی ہے۔ جسم بوسیدہ ہو جاتا مگر یادیں ویسی ہی تابناک اور بشاش رہتیں ہیں۔ مجھے نہیں پتہ اب زیبی کہاں تھی اور کیسی ہو گی؟ مگر یقین تھا کہ وہ زندہ ہے کیونکہ میرا دل دھڑکتا تھا۔
افتخار احمد کا گھر آسانی سے مل گیا۔ خاصی گہما گہمی تھی ان کے گھر میں مانو کوئی تقریب ہو۔ انہوں نے عزت و احترام سے اپنی بیٹھک میں بیٹھایا۔ اچھے اخلاق مند اور معقول لگے۔ میں نے صرف اپنا تعارف کروایا معراج کا حوالہ نہیں دیا۔ وہ اچنبھے میں ضرور تھے مگر آدمی چونکہ وضعدار تھے سو حیرانگی کو پی گئے۔ میرے استفسار پر کہ گھر پر کوئی تقریب ہے؟ انہوں نے خوشدلی سے بتایا کہ جی بارہ ربیع الاول کی میلاد کی تقریب تھی۔
میں نے کہا کہ پھر تو میں نہایت مبارک موقع پر آیا ہوں۔ میں نے کہا افتخار صاحب آپ لوگ نسلوں سے اس مٹی پر آباد ہیں اور ہمارا ایک دوسرے کے ساتھ بہت گہرا رشتہ ہے۔ مٹی کا تو ہے ہی مگر اس بھی مضبوط اور اٹوٹ رشتہ مذہب کا ہے۔ وہ مذہب جو ہمارے پیارے نبی ﷺ لیکر آئے تھے اور انہوں نے اس کی ترویج کے لیے اپنی جان کھپا دی تھی۔ آپ ﷺ کا آخری خطبہ تو افتخار صاحب آپ کو یاد ہی ہو گا، جس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ
"کسی عجمی کو عربی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فوقیت نہیں۔ "
جب کلمہ پڑھ لیا تو سب ایسے ایک ہو گئے جیسے ایک تسبیح کے دانے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ ہم لوگ ذات پات، خاندان اور زبان کی بنیاد پر انسانوں کو کیوں تقسیمِ کر رہے ہیں؟ ہم سب ایک ہی تو ہیں، چاہیے سید ہوں یا شیخ، اُردو بولتے ہوں یا بنگلہ، ہیں تو اسی آقا کے امتی۔ میں اسی آقا کے صدقے آپ سے آپ کی بیٹی کو اپنے پوتے معراج کے لئے مانگتا ہوں۔
افتخار صاحب نے لمحے کے تؤقف کے بعد کہا کہ مدثر صاحب آپ نے جس عظیم المرتبت شخصیت کے حوالے سے بات کی ہے اس کے بعد تو ساری بات ہی ختم ہو گئی۔ جانے میں کہاں بھٹک گیا تھا، یقین کیجیے میں از حد شرمندہ ہوں۔ لیجیے مٹھائی سے منہ میٹھا کیجیے۔ یوں رجب کے مہینے معراج اور ممتاز کی شادی خانہ آبادی انجام پائی۔ اور اب میں سلہٹ میں اپنی ون وے ٹکٹ ہاتھوں میں لیے، ویٹنگ روم میں اپنی عالم بالا سے آنے والی فائنل کال کا منتظر ہوں۔