Mare Thay Jinke Liye (3)
مرے تھے جن کے لیے (3)
اس کی چوتھی پریگننسی بہت سخت رہی اور سی سیکشن کے بعد اللہ تعالٰی نے گل گوتھنا سا شہزادہ اس کی گود میں ڈال دیا۔ اب میرا زیادہ وقت وینکوور میں ابصار کے گھر گزرتا کہ پوتا پوتی کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی زندہ کھلونے دے دیے تھے اور انصار کی شادی کے بعد اس کی طرف سے بھی بے فکری تھی۔ رمشہ میری چھوٹی بہو اور بلقیس میں بڑا بہناپا تھا۔
دو بیڈ روم کا فلیٹ اب بلقیس کے لیے بہت تنگ پڑ گیا تھا اور وہ قادر کی اگلی پے ریز کی منتظر تھی کہ کم از کم تین بیڈ روم کا فلیٹ کرائے پر لے لے مگر ٹورانٹو میں تو رینٹل پراپرٹی میں گویا آگ لگی ہوئی تھی اور اس جگہ سے دور وہ جانا نہیں چاہتی تھی کہ یہاں سے اسکول، مسجد اور گروسری کی دکان سب دس منٹ کے فاصلے پر۔ اس کی شادی کی پندرھویں سالگرہ قریب تھی اور وہ اس بار قادر کے لیے سرپرائز پارٹی کا مکمل منصوبہ بنائے ہوئے تھی۔
اس کے لیے آن لائن شاپنگ کر چکی تھی اور قادر کا تحفہ محبت سے پیک کر کے میری الماری میں رکھوا دیا تھا۔ پیک شدہ تحفہ پر وہ دیر سے بے خبری میں محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بے اختیار مسکرا رہی تھی۔ کبھی کبھی اس کی جنوں خیز محبت مجھے ڈرا دیتی تھی۔ میں نے ایسے ہی چھیڑا کہ بلقیس کیا تم قادر کے نام کی تسبیح بھی پڑھتی ہو؟
اپنی مخصوص چھناکے دار ہنسی کے ساتھ بولی "خالہ میری تو آتی جاتی سانسیں ہی اس کے نام کی ردھم پر چلتی ہیں۔ "
میں نے کہا لڑکی، تم دیوانی ہو؟
مئی کے مہینے میں ابصار کی طرف وینکوور چلی گئ کہ دلہن کے یہاں خوش خبری تھی۔ بلقیس نے بھی میرے ساتھ ننھے مہمان کے لیے ڈھیر ساری سوغات بھیج دی تھی اور مجھ سے وعدہ لیا کہ میں اس کی شادی کی سالگرہ کی تقریب سے پہلے واپس آجاؤں گی۔ مجھے وینکوور پہنچے بمشکل ایک ہی ہفتہ ہوا تھا، وہ اتوار کا دن تھا اور میں ننھے ارحم کی مالش کر رہی تھی کہ فون کی گھنٹی پر ابصار نے چہکتے ہوئے فون اٹھایا مگر لمحے بھر ہی میں اس کی آواز کی دہشت اور چہرے کی سفید رنگت نے مجھے بے چین کر دیا۔
اِلٰہی خیر! انصار اور دلہن خیریت سے ہیں نا؟
ابصار نے مجھے پکڑ کر پلنگ پر بیٹھایا اور بڑی دلہن کو پانی کے لیے آواز دی۔
میرا دل گھبرا رہا ہے ابصار جلدی بتاؤ کیا ہوا ہے؟
امی قادر بھائی اور ان کی فیملی ملٹن جا رہے تھے کہ گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔
اللہ خیر سب ٹھیک تو ہیں؟
امی! سب مخدوش حالت میں ہسپتال میں داخل ہیں۔
میرا دل ڈوب گیا، ہائے میری بچی!
ائیرپورٹ پر انصار لینے آیا تھا اور وہ وہیں مجھ سے لپٹ کر بلک بلک کر رونے لگا۔
امی! باجی، سلیمان اور ہادیہ نہیں رہے۔
روتے بلکتے گھر پہنچی، میرے سمجھ ہی میں نہیں آ رہا تھا کہ میں قادر کو کن الفاظ میں تسلی دوں؟ قادر، نوریہ اور یوسف معجزاتی طور پر بچ گئے تھے۔ قادر مجھے دیکھتے ہی میرے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اس نے بتایا کہ سڑک کراس کرتے ہرن کو بچانے کی کوششں میں گاڑی گڑھے میں جا گری۔ ہم سب بہت زخمی نہیں تھے۔
بلقیس نے اپنے زخموں کی پروا نہ کرتے ہوئے یوسف اور نوریہ کو گاڑی سے نکالا پھر بڑی مشکل سے مجھے نکلنے میں مدد دی کہ گاڑی اسی پہلو سے الٹی تھی، وہ جنونی طور پر سلیمان اور ہادیہ کو بچانے کی کوششوں میں ہلکان تھی کہ گاڑی سے لیک ہوتے پیٹرول نے آگ پکڑ لی اور وہ تینوں بھڑکتے شعلے کے نظر ہو گۓ، سیکنڈ سے بھی کم میں سب کچھ ختم ہو گیا۔ ماں تھی نا بیٹا، اپنی جان کی پروا کیسے کرتی، اور تم پر تو وہ ویسے ہی پل پل نثار رہتی تھی سو تمہیں اپنی جان پر کھیل کر بچا ہی لیا۔
مجھے قادر کا بڑا دکھ تھا بھلا چونتیس پینتیس سال کوئی عمر ہے اجڑنے کی؟ پر مشیت ایزدی کے آگے کس کی چلی ہے؟ قادر کے والدین کو بیٹے کے دکھ نے نڈھال کیا ہوا تھا۔ وہ لوگ اب قادر کے ساتھ رہنے لگے تھے اور ان ہی کی وجہ سے نوریہ اور یوسف سنبھل گئے۔ دو سالہ یوسف تو دادی کو ایک پل کے لیے نہیں چھوڑتا تھا۔ شروع کے دنوں میں یوسف پورے گھر میں بلقیس کو پکارتا چلتا، جب تھک کر بے دم ہو جاتا تو اس کا ڈوپٹہ یا اسکارف لے کر کسی کونے میں نڈھال پڑ جاتا، مگر کب تک؟
بے بس ہو کر بالآخر دادی کی گود میں پناہ لی۔ بہت کمزور اور چڑچڑا ہو گیا تھا۔ بھرے پرے گھر کی چہک اور رونق ختم ہو گئی تھی۔ بچوں اور گھر کی دیکھ رکھ میں دادی غریب الگ ہلکان تھیں۔ میں اکثر ان کے پاس جا کر بیٹھ جاتی اور جو بھی بن پڑتا کر دیتی۔ وہ گھر جہاں قہقہے اور زندگی تھی وہاں ویرانی اور خاموشی نے ڈیرے ڈال لیے تھے۔ ہفتوں سب الٹ پلٹ رہا مگر گزرتا وقت اور نسیان دو ایسی بیش بہا نعمتیں ہے جو زخموں پر کھرنڈ ڈال ہی دیتی ہیں۔
سوگ کے دنوں میں قادر کے گھر، اس کی ایک دور پار کی کزن کی آمدورفت بہت بڑھ گئی تھی، اتنی زیادہ کہ وہ ہر فیصلے کی مشیر اور گھر کے فرد کی زندگی میں دخیل ٹھہری۔ وہ بلاشبہ ایک خوب صورت اور دلکش لڑکی تھی۔ بلقیس کے گھر میں تیزی سے در آتا بدلاؤ اور نارمیلسی حیران کن تھا۔ میری تجربہ کار بوڑھی آنکھیں بہت کچھ دیکھ رہی تھیں۔
مجھے حیرت اور دکھ بس اس بات کا کہ کیسا دوغلا معاشرہ ہے ہمارا، کیا ہم کسی تیس پینتیس سالہ بیوہ کے لیے اتنے فراخ دل ہو سکتے ہیں کہ اس کی دوسری شادی کے لیے متفکر ہوں؟ اس بے بس عورت کی تنہائی تو ہمارا دل نہیں پگھلاتی جبکہ عورت صنف نازک بھی۔ اس کے لیے یہ کیوں طے کر لیا جاتا ہے، کہ بس اب کی ذاتی زندگی ختم، سو اب وہ خواہشوں، جزبوں اور موسموں سے دستبردار ہو کر کولہو میں جت جائے اور اطراف سے بے نیاز ہو کر بچوں کی پرورش میں تن من سب جھونکھ دے۔
اس کے کمزور کاندھوں پر بچوں کی دیکھ رکھ کے ساتھ ساتھ معاش کی کل ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے اور اس پر طرفہ ستم یہ کہ اس سفر پرخار میں ہر ہر فٹ کی مسافت پر زبان لپلپاتے ہوئے خون آشام بھیڑیے اس کی عزت اور جان کے درپے بھی رہتے ہیں۔ خدا کی وہ کمزور مخلوق ممتا کی ردا اوڑھے ہر آزمائش اور ابتلا سے گزر جاتی ہے اور بعض بد قسمت تو اس کٹھالی سے گزرنے کے باوجود آخری عمر میں خالی ہاتھ رہ جاتی ہیں۔
آخر مرد ہی کے معاملے میں معاشرے کی ممتا کیوں ابل ابل کر پھوٹتی ہے؟ صنف قوی اکلاپے کی اذیت کیوں نہیں سہ سکتا؟ کیوں اپنے بچوں کی ماں بن کر پرورش نہیں کر سکتا؟ اس کے پاس تو معاش بھی ہے اور وہ معاشرے سے خوف زدہ بھی نہیں کہ وہ خود ہی تو معاشرہ ہے۔ جب عورت باپ بن سکتی ہے، کمزور ہوتے ہوئے نفس سے لڑ سکتی ہے تو مرد کیوں نہیں؟
اول تو کوئی عورت کو سہارا دینے کا روادار نہیں بالفرض محال کسی نے دکھیاری کو سہارا دے بھی دیا تو اس سہارے کے عوض اس کی اور اس کے بچوں کی سانسیں رہن رکھ لی جاتی ہیں۔ میری توقع سے بھی پیشتر قادر کی شادی کا کارڈ میرے ہاتھوں میں تھا۔ شادی کا کیا ہے؟ شادیاں تو دیر یا سویر ہو جاتی ہے کہ کمزور مرد نہ وچھوڑ سہہ سکتا ہے اور نہ ہی ہجر کاٹ سکتا ہے، میں دلگیر تھی، کہ مجھے شدید رنج محبت کی رپلیسمنٹ کا تھا۔
کیا محبت جیسا آفاقی جزبہ اتنا ہلکہ اور خام ہے کہ ہجر کی تپش بھی نہ سہار سکے۔ قادر ایسا بے قدر کہ پندرہ سالہ رشتے کا بھرم پندرہ مہینے تو کیا، پندرہ ہفتے بھی نہ رکھ سکا۔ وہ جان نثار کم از کم اتنے کی مستحق تو تھی ہی۔ مجھے تو یقین ہے وہ کملی وہاں بھی اسی کے نام کی تسبیح پھرولتی ہو گی۔