Mare Thay Jinke Liye (2)
مرے تھے جن کے لیے (2)
وہ قدرت کا شاہکار، چادر میں لپٹی اپنے دونوں بچوں کے ساتھ لانڈری میں مشین میں کپڑے ڈال رہی تھی۔ اس کا نام بلقیس تھا۔ بلقیس اور قادر دونوں کراچی کے رہنے والے تھے۔ قادر کے والدین اور چھوٹا بھائی بھی اپنی فیملی سمیت یہیں ٹورانٹو میں رہتے تھے مگر بلقیس کا میکہ کراچی میں تھا۔ وہ بڑی دلربا، خوبصورت اور با ادب لڑکی تھی۔ اس کی آنکھیں جیسے جلتے چراغ اور ہنسی، ہنسی تو اتنی مدھر جیسے جلترنگ بج اٹھے ہوں۔
بیٹا سلیمان ڈھائی سال کا اور گڑیا سی بیٹی محض تین ماہ کی تھی۔ لانڈری میں کپڑے ڈالتے نکالتے باتوں میں کب وقت گزرا پتہ ہی نہیں چلا۔ مجھے بلقیس سے مل کر واقعی بہت خوشی ہوئی تھی، بڑی اپنائیت اور بے ساختہ پن تھا اس کی شخصیت میں۔ اچھا پڑوس بھی اللہ کی نعمت ہے اور یہاں تو ہم زبانی کی عیاشی بھی میسر تھی۔ سامنے والوں کا پورا گھرانہ ہی بہت زندہ دل اور خوش طبع تھے، تفریح کے شوقین۔
سنیچر اور اتوار کو یا تو قادر کی فیملی اپنے چھوٹے بھائی کی طرف اور پھر وہاں سے کسی تفریحی مقام کی طرف نکل جاتی یا پھر چھوٹے بھائی کی فیملی، قادر اور بلقیس کی طرف آ جاتی، اور پھر سب اکٹھے کہیں پکنک منانے روانہ ہو جاتے۔ دو چار بار میں نے بھی ان لوگوں کے ساتھ پکنک میں شرکت کی مگر اب میں کچھ تنہائی پسند ہو چکی تھی سو مجھے گھر کا کمفرٹ زیادہ بھاتا تھا۔ بلقیس میں بلا کی پھرتی تھی۔ وہ کھانا تو اس تیزی اور مشاقی سے پکاتی جیسے اس کے قبضے میں کوئی جن ہو۔
اکہرے بدن اور گھٹاؤں جیسے بالوں والی بلقیس روز بروز میرے دل میں اترتی جا رہی تھی اور اب مجھے بیٹی کی ہی طرح عزیز بھی۔ رمضان میں شاید پانی کی کمی کے سبب میرا دیرینہ درد گردہ عود آیا اور بلقیس نے میری تیمار داری کے ساتھ ساتھ ہفتے بھر میرے گھر کی سحری و افطاری کی ذمہ داری بھی اپنے کندھوں پر اٹھا لی۔ میں نے اور انصار دونوں نے منع بھی کیا کہ میرے بچے کچن سے کماحقہ واقف تھے مگر بلقیس ہنستے ہوئے کہنے لگی خالہ لوٹ سیل کا مہینہ ہے کیوں میرے ثواب میں ڈنڈی مار رہی ہیں۔
بلقیس کی حس مزاح بھی اس کی ہنسی ہی کی طرح کھنکھناتی اور کھلکھلاتی ہوئی تھی۔ بلقیس کے روپ میں مجھے پلی پلائی بیٹی اور بونس میں نواسہ اور نواسی مل گئے تھے۔ ابصار کی شادی سر پر تھی اور میرے دور دراز کے مہمانوں میں صرف ابصار کے چچا اور پھوپھی تھے جنہوں نے امریکہ سے آنا تھا اور میرے مائیکے کا واحد رشتہ میری اکلوتی بہن کراچی سے متوقع تھی۔
ابصار کے چچا تو بوسٹن سے اپنی فیملی سمیت فقط تین دنوں کے لیے آ رہے تھے اور انہوں نے اپنا انتظام ہوٹل میں کیا تھا، میری چھوٹی نند عفت اٹلانٹا سے ہفتے بھر کے لیے آ رہی تھی اور میری بہن مہینے ڈیڑھ کے لیے۔ میرا چھوٹا سا دو بیڈ روم کا اپارٹمنٹ تھا اور میں سوچ رہی تھی کہ مہینے بھر کو کوئی جگہ رینٹ پر لے لوں کہ شام میں قادر اور بلقیس ہنستے مسکراتے آئے اور کہا خالہ ہفتے بھر کی تو بات ہے، کیا تردد پال رہی ہیں، ہمارا فلیٹ حاضر ہے ہم لوگ ہفتے بھر کے لیے چھوٹے بھائی کے گھر شفٹ ہو جائیں گے، آپ بے فکری سے ہمارا گھر استعمال کیجیے۔
ان دونوں کے بے لوث خلوص کے آگے میری زبان گنگ ہو گئی۔ ابصار کی مہندی پر قادر نے اپنے دوستوں کو بھی بلایا اور خوب رونق میلا لگایا۔ دلہن کی بری کی تیاری میں، جوڑوں کے رنگ اور کام پر بلقیس نے بہت مدد کی کہ مجھے واقعی نہ موجودہ فیشن کی کچھ خبر تھی اور نہ ہی میرا ٹرینڈ سے دور دور تک کوئی واسطہ تھا۔ ابصار کی شادی ایک یادگار تقریب تھی جس کے بعد بلقیس اور میں اپنائیت کے بے بہا رشتے میں بندھ گئے۔
بڑی ادب آداب سے مرسع، دیالو بچی تھی۔ اپنے میکے، سسرال اور خاندان سے باخبر رہتی، باوجود چھوٹے بچوں کے سب کی خوشی غمی میں دل سے شامل ہوتی۔ دکھلاوے اور تصنع سے کوسوں دور۔ بلقیس کے گھر تیسرے بچے کی ولادت قریب تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے نوازا تھا۔ سلیمان اب اسکول جانے لگا تھا۔ سیلمان، ہادیہ اور نوریہ اسے بے پناہ مشغول رکھتی مگر وہ پیشانی پر بل لائے بغیر تندہی سے گھر اور باہر کے کاموں میں مصروف رہتی۔
انہیں دنوں ورک فرام ہوم کا رواج نیا نیا شروع ہوا تھا اور انصار گھر سے کام کرنے لگا تھا۔ میں خوش تھی کہ میرا بچہ راستے کی کوفت اور بھگدڑ سے محفوظ ہے کہ ٹورانٹو کی ٹریفک الاماں الاماں۔ میں نے نوٹ کیا کہ بلقیس اکثر دونوں بچیوں کو لے کر نیچے لانڈری میں بیٹھی رہتی ہے، پوچھنے پر پتہ چلا کہ قادر کی میٹنگ کے دوران وہ نیچے آ جاتی ہے کہ نوریہ بھی اب چلنے لگی تھی اور وہ باپ کے کمرے کا دروازہ پیٹنا شروع کر دیتی ہے۔
یوں پہلی بار میں ورک فرام ہوم کے مضمرات سے آگاہ ہوئی اور مجھے احساس ہوا کہ واقعی اس چکر میں ماؤں پر بوجھ بہت بڑھ گیا ہے، اب میاں کے کام کے دوران بچوں کو محدود جگہ پر خاموش و مشغول رکھنے کی اضافی ذمہ داری بھی ماؤں کے سر پر پڑ گئی ہے۔ ایک دن بلقیس کچے گوشت کی بریانی اور میری پسندیدہ پڈنگ بنا کر لائی۔
میں نے اس کے ہاتھوں کے ذائقے کی تعریف کی تو خوب ہنسی اور کہنے لگی سب قادر سے سیکھا ہے کہ ان کی خواہش شیف بننے کی تھی، پر آپ تو جانتی ہیں دس سال پہلے پاکستان میں یہ کام اتنا پسندیدہ کہاں تھا؟ میں تو انہیں کہتی ہوں کہ کلنری اسکول میں داخلہ لے کر ریڈ سیل لیجیے اور اپنا شوق پورا کیجیے۔ اس کا ہر جملہ قادر سے شروع ہو کر قادر پر ختم ہوتا۔ دنیا کا کوئی بھی موضوع ہو مگر تان ہمیشہ قادر ہی پر آ کر ٹوٹتی۔
اس کی محبت کی جوت سے جگمگاتی آنکھیں اور قادر کا نام لیتے وقت اس کے لہجے میں گھلی مصری مجھے بہت لطف دیتی۔ شادی کے تیرہ سال بعد بھی اتنی توانا اور بھرپور محبت میری نظروں سے بہت کم گزری تھی۔ ایک دن میں نے پوچھا کہ تمہاری شادی ارینج ہے یا پسند کی؟ کہنے لگی پسند کی نہیں بھئی محبت کی شادی ہے۔ بڑی مخالفتوں کے بعد ہم نے ایک دوسرے کو پایا ہے۔ وہ محبت سے چھلکتی مئے تھی اور شاید اس کا جنم ہی محبت کے فروغ کے لیے تھا۔
طبیعت سے غنی اور منکسر المزاج۔ اب میرا اور اس کا دس سالہ ساتھ تھا مگر میں نے اس کے منہ سے کبھی بھی کسی کی برائی نہیں سنی۔ ایک بار پوچھا بھی کہ سچ سچ بتاؤ، " کیا تمہیں واقعی کسی سے کوئی شکایت نہیں؟ میاں، سسرال، خاندان، دوست احباب، کسی کی کوئی بات کبھی تو بری لگی ہو گی؟" ہنس کر کہنے لگی "خالہ زندگی تو محبت کے لیے بھی بہت تھوڑی ہے اسے کہاں نفرتوں کے نظر کرتی پھروں۔
دل میں ہمیشہ ایک قبر بنا کر رکھنی چاہیے تاکہ اس میں اپنوں کی کوتاہیاں اور گلے شکوے کو دفن کرتے رہا جائے اور بندہ سکون سے جیے۔ " بلقیس اور قادر کے تینوں بچے بڑے تمیز دار اور پیارے تھے، اب تینوں ہی اسکول جانے لگے تھے اس لیے اس کے پاس قدرے فراغت تھی مگر وہ بھی سیماب صفت اسے کہاں چین، اس نے اس فارغ وقت کو فری لانسنگ اور اپنے پینٹنگ کے دیرینہ شوق سے مصروف کار کر لیا۔
میں انصار کی دلہن کی تلاش میں تھی کہ اس نے مجھے ایک لڑکی سے ملوایا، مجھے وہ لڑکی اچھی لگی مگر میں نے بلقیس سے کہا کہ بھئی کہیں سے اپنی ڈپلیکیٹ ڈھونڈ کر لاؤ۔ خوب ہنسی اور کہا خالہ مجھے بنانے کے بعد اللہ تعالٰی نے وہ سانچا توڑ دیا ہے۔ واقعی میری اتنی عمر گزری، کیا دیس کیا پردیس میں نے ایسی بے ریا اور بے لوث روح نہیں دیکھی۔ انصار نے بھی اس لڑکی کو پسند کیا اور یوں یہ معاملہ طے پا گیا۔ انصار کی شادی کی گہما گہمی میں، میں نے اسے قدرے تھکے تھکے پایا اور خیریت پوچھنے پر پتہ چلا کہ چوتھے مہمان کی آمد آمد ہے۔