Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Bedad e Ishq (1)

Bedad e Ishq (1)

بیدادِ عشق (1)

ابھی ابھی چھوٹی کمرے سے باہر گئی ہے اور اس کے غصے میں کہے گۓ صرف ایک جملے نے مجھے بیالیس سال پہلے کی بھولی بسری لڑکی کے برابر لا کھڑا کیا۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جیسے آپ سخت نا پسند کریں یہاں میں نفرت کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتی کہ یہ بڑا کریہہ اور بوجھل لفظ ہے۔ کچھ رشتوں میں آپ کو نفرت کا یقین ہوتا ہے مگر وہ بھی بس اوپری اوپری ہی ہوتی ہے کہ سگے رشتوں سے نفرت تقریباً نا ممکن ہے۔

ہاں نا پسندیدگی ضرور ہوتی ہے اور آپ کو گمان بھی نہیں ہوتا اور وہ ناپسندیدگی قطرہ قطرہ آپ کے اندر سرائیت کرتی جاتی ہے اور جانے بدلتے وقت کی کس ساعت میں آپ خود ہو بہو اسی شخصیت کا عکس ہو جاتے ہیں۔ دراصل چھوٹی کی کل دسویں جماعت کی فیرول پارٹی ہے اور وہ اپنے جوڑے کے چناؤ کے سلسلے میں مجھ سے مدد کی متقاضی تھی۔ چھوٹی کے غصے میں کہے گئے جملے کی باز گشت سے میں ابھی تک باہر نہیں آ سکی اور ٹائم ٹنل میں محوِ سفر بہت بہت پیچھے چلی گئی۔

میرا ابتدائی بچپن بہت خوب صورت اور محبت کے رچاؤ سے رچا بسا تھا جو سبزے سے ڈھکے ایک مہربان گھر میں گزرا۔ چاہتوں سے آباد وہ گھر جس کی دیواریں ہریالی سے الماسی اور روش روش پھولوں سے معطر و یاقوتی تھی شاید یہ لاہور کی فضا میں گھلی محبت کی گرمائش کا اعجاز تھا۔ پاپا ان دنوں فلمی دنیا میں قدم جمانے کی سر توڑ کوشش کر رہے تھے اور اداکاری کے اس جنون نے ان کو کچھ اور کرنے جوگے چھوڑا ہی نہیں تھا۔

ملٹائی نیشنل کمپنی میں اپنی شاندار آرکیٹیکٹ کی نوکری کو چھوڑ کر وہ دن رات شباب کیرانوی اسٹوڈیوز کے چکر لگاتے رہتے مگر ابھی تک ان کی شناخت ناکامی ہی تھی۔ بدلتے حالات کی سختیوں کے تحت پہلے ہم لوگوں کا گھر اعلیٰ سے متوسط ہوا، پھر بڑی گاڑی کی جگہ چھوٹی سی پرانی کار نے لے لی۔ گھر کی فضا میں اب وہ پہلے جیسی چہچہاہٹ اور خوشگواریت مفقود تھی۔ مام اس سخت گھڑی میں میدان عمل میں بطور ٹیچر آئیں اور گھر کی دال روٹی کا آسرا ہوا۔ زندگی کی گاڑی سیکنڈ گئیر ہی میں سہی پر چلنے لگی۔

پاپا کے سر پہ ہما کے سائیہ فگن ہوتے ہی تین سال کے مختصر عرصے میں کایا پلٹ گئی اور ایسی پلٹی کہ وقت کی راسیں پاپا کے ہاتھوں میں آ گئیں، لولی وڈ تو لولی وڈ انہیں ہولی وڈ میں بھی پزیرائی ملی۔ پاپا نے سرعت سے کامیابی کا سفر طے کیا اور ہم چاروں دوبارہ بہت بڑے گھر، شاندار گاڑی اور اضافی شہرت سے بہریاب ہوئے مگر جلدی ہی ایک گڑ بڑ ہو گئی۔ پاپا کی کامیابی کے اس برق رفتار سفر میں ساتھ کھڑے لوگ کہیں وقت کی دھول میں اٹ کر اوجھل ہو گئے۔

شہرت کی چکا چوند سے ان کی آنکھیں ایسی خیرہ ہوئیں کہ قریب کے چہرے اور رشتے سبھی فیڈ آؤٹ ہو گئے۔ مام جنہوں نے اپنے والدین کی ناراضگی مول لے کر اپنے من کے میت کے ساتھ اپنی جنت بسائی تھی وہی گلفام اس گلستان کو تج کر نئ دنیا تسخیر کرنے چلا گیا۔ مام ان دنوں بہت اداس رہتی تھیں، ہم دونوں بھائی بہن سے بھی قطعی لاپروا۔ ان کی آنکھیں ہر وقت سوجی رہتی اور وہ اپنے حال اور حلیے سے مطلق بے خبر تھیں۔

سنا ہے کہ ان دنوں گھر پر اخبار کی ممانعت تھی کہ وہ پاپا کی رنگین تصویروں سے کہیں زیادہ سنگین خبروں سے چٹخارے دار ہوا کرتے تھے۔ صفحہ اول کی ہیروئین اور پاپا کے معاشقے کی داستان زبان زد عام تھی۔ مجھے بسبب اپنے بچپنے کے معاملے کی سنگینی کا احساس تو نہیں تھا مگر پاپا کی کمی شدت سے محسوس ہوتی تھی۔ مجھے پاپا کا فلموں میں کام کرنا پسند نہیں تھا کیوں کہ اب ان کے پاس ہمارے لیے وقت ہی نہیں ہوتا تھا۔

میں اور ارحم ان کا رستہ دیکھتے رہتے اور وہ ہفتوں گھر نہیں آتے اور جب آتے تو مام روتی، چلاتی اور ان سے جھگڑتی رہتی اس باعث گھر کی فضا مسموم تھی۔ زندگی بالکل سہم کر رہ گئی تھی۔ گھر پر ایک پر ہول سناٹا چھایا رہتا اس قدر گمبھیر کہ گھر کے ملازمین بھی مانو سائے جیسے متحرک لگتے تھے۔ پھر ایک دن پاپا آئے ایک فائل سائیڈ بورڈ پر رکھی اور سوٹ کیس میں اپنے کپڑے ڈالے اور گھر سے نکلنے سے پہلے مجھے اور ارحم کو لپٹا کر بہت پیار کیا اور بتایا کہ وہ شوٹنگ پر لمبے عرصے کے لیے ملک سے باہر جا رہے ہیں۔

دو دن بعد ماموں کراچی سے آئے، ملازمین کو فارغ کیا اور ہم لوگوں کی آدھی ادھوری پیکنگ کر کے ہم تینوں کو کراچی لے آئے۔ ہم تینوں نانی کے ساتھ رہنے لگے۔ مام کے دو ہی کام تھے رونا اور سونا۔ مام روتی رہتی اور پھر نانی انہیں دوا دے دیتی اور وہ تھوڑی دیر کے لیے اپنے دکھوں سے بے نیاز، بے خبر سو جاتیں۔ اب میں مام سے بالکل مایوس ہو چکی تھی اور ارحم اور میں ہی ایک دوسرے کا سہارا تھے۔

اپنے ننھیال میں میں نے اپنے باپ کے خلاف بہت کچھ سنا، وہ کچھ بھی ان کے کھاتے میں ڈال دیا گیا تھا جس کا انہوں نے ارتکاب تو دور کی بات شاید گمان بھی نہیں کیا ہو گا۔ میری کزنز کا دل پسند مشغلہ پاپا سے متعلق خبروں کے تراشے جمع کرنا اور بطور خاص مجھے دکھانا تھا۔ میں بظاہر بڑی لا تعلقی کا اظہار کرتی مگر میرا دل چاہتا تھا کہ ان کے منہ نوچ لوں یا پھر اپنے کانوں میں سیسہ انڈیل لوں یا پھر اس بے مہر دنیا ہی کو آگ لگا دوں۔

اسکول میں اگر کوئی لڑکی اپنے پاپا کا زیادہ ذکر کرتی تو مجھے اس سے خوامخواہ کی پرخاش ہو جاتی تھی۔ میں لوگوں سے اپنی شناخت چھپاتی مگر بھلا ہو میرے کزنز کا انہیں میرا بھرم توڑنے کا چسکہ تھا۔ نتیجتاً میں اور ارحم تنہا ہوتے چلے گے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہی خود کو محفوظ تصور کرتے تھے۔ پاپا نے پھر کبھی پلٹ کر ہماری خبر ہی نہ لی۔ میں آج تک حیران ہوں کہ شوہر طلاق تو بیوی کو دیتا ہے مگر اپنے جگر گوشوں کو کیونکر بھول جاتا ہے؟

طلاق کے پیکج میں مردوں کی بچوں سے دستبرداری کیوں؟

کیا اولاد اتنی بے حقیقت اور بے مایا ہے؟

میری مصیبت یہ تھی کہ میں چاہتے ہوئے بھی پاپا کو بھلا نہیں پا رہی تھی۔ پاپا وہ شخص ہیں جس سے میں نے شاید بیک وقت شدید محبت اور نفرت کی ہے۔ جہاں مجھے ان کی کمی تڑپاتی تھی وہیں ان کی بے مروتی خون کے آنسو رلاتی۔ مجھے مام پر بھی شدید غصہ تھا کہ ایک شخص تمہیں روند کر چلا گیا ہے، اس نے صرف تمہاری نا قدری ہی نہیں کی بلکہ کسی عضو معطل کی طرح تمہیں اپنی زندگی سے کاٹ کر پھینک دیا ہے، مگر آپ ہیں کہ اس کے سوگ سے نکل ہی نہیں پا رہی ہیں۔

ایک اپنی من چاہی زندگی بسر کرنے کے لیے ہماری زندگیوں سے نکل گیا اور دوسرے نے اپنے غم میں ڈوب کر ہمیں بسرا دیا، یوں ہم بدنصیبوں نے بیک وقت ماں اور باپ دونوں کھو دیے تھے۔ نانی بیچاری کہاں تک سب کو دیکھتی، وہ بری طرح بیمار پڑ گئی اور ان کی بیماری مام کی حال میں واپسی کا بہانہ ہوئی۔ اس جھٹکے سے مام خاصی سنبھل گئیں اور نانی کے ساتھ ساتھ ہم لوگوں کا بھی خیال رکھنے لگیں۔

نانی کے صحت یاب ہوتے ہی نانی کے مشورے پر مام نے کیٹیرنگ کا کام شروع کر دیا۔ ان کے ہاتھوں میں غضب کا ذائقہ تھا۔ پاپا رات میں کتنا ہی لیٹ کیوں نہ ہو جاتے مگر کھانا ہمیشہ گھر آ کر ہی کھاتے تھے۔ روزانہ دن میں ایک بڑا سا ٹفن کیریئر گھر سے ان کی یونٹ پر پہنچایا جاتا تھا۔ پاپا اکثر مام سے مذاق میں کہتے تھے تم نے تو میدے کے راستے دل میں بسرام کرنے کا مقولہ صحیح ثابت کر دیا۔

اب وہ کیا کھاتے ہوں گے؟

تینوں وقت مام نہ سہی ان کے ہاتھوں کا ذائقہ تو انہیں یاد آتا ہو گا؟

یا شاید جب دل بدلتے ہیں تو بندہ سر تا پیر اور اندر باہر سے بھی بدل جاتا ہے۔ پسند، ناپسند اور سواد سب جیسے نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔ سوالات کی ایک بانبھڑ تھی جس میں میں پہروں جلتی اور ہر رات میرا تکیہ نمکین پانی سے تر ہو جاتا تھا۔ مام پہلے اپنے غموں کی بھٹی میں کلستی جھلستی رہیں اور اب ان کو ان کا کیٹیرنگ کا بزنس سموچہ نگل چکا تھا۔ ہم دونوں بھائی بہن مالی طور پر آسودہ پر دل شکستہ تھے۔

پاپا کے جانے کے بعد مام کلی طور پر ہم لوگوں کے حصے میں کبھی آئیں ہی نہیں۔ پہلے محبوب شوہر سے جدائی کے غم اور پھر اس غم سے فرار نے ان کو مصروفیت کے بن میں ایسا دھکیلا کہ مام گھر واپسی کا راستہ ہی کھو بیٹھیں نتیجتاً ہم تینوں ہی تنہائی کے دائروں میں سفر کرتے رہے۔ زندگی کب تھمتی ہے! دن ٹکسال میں ڈھلتے سکے کی طرح ٹھناٹھن گرتے چلے گئے۔ میں نے ہوم اکنامکس میں ڈگری لی اور ارحم تازہ تازہ فرسٹ ائیر پری انجینئرنگ میں آیا تھا۔

مام کو جانے کون سے ہول اٹھتے تھے کہ ان پر میری شادی کی دھن سمائی ہوئی تھی۔ میں اپنے خول میں بند ایک ڈری سہمی دبو سی لڑکی جو شادی اور نئے رشتے بنانے سے خوفزدہ تھی۔ پاپا کی بے وفائی نے مردوں کو بے اعتبار کر دیا تھا اور میری سوچ اس سہ حرفی لفظ پر آ کر ٹھٹھر جاتی اور پیکر بے مہری مجسم آنکھوں کے سامنے استادہ ہو جاتے۔ آگے پڑھنے کی چاہ کے باوجود میں مام کی ملتجی آنکھوں سے ہار گئی اور شاہ جہاں کے رشتے پر ہامی بھر لی۔

Check Also

Akbar The Great Mogul

By Rauf Klasra