Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Shafaqat Abbasi/
  4. Tosha Khanna

Tosha Khanna

توشہ خانہ

توشہ خانہ میں باہر کے ممالک اور سربراہان مملکت کی طرف سے ملنے والے تحائف جمع کروائے جاتے ہیں۔ یہ تحائف کسی شخص کو ذاتی حیثیت میں نہیں ملتے بلکہ وزیراعظم پاکستان، صدر پاکستان اور اسطرح کے سرکاری بڑے عہدے داروں کو ملتے ہیں۔ بلکہ یوں کہیے کہ پاکستان کو ملتے ہیں اور وہ تحائف 15، 20، 25 اور اب 50 فیصد ادائیگی پر ارب، کھرب پتی سیاستدان گھر لے جاتے ہیں۔

یہ کھیل پاکستان بننے سے ہی جاری و ساری ہے اور اس بہتی گنگا میں سب ارب، کھرب پتی سیاستدانوں نے اپنے ہاتھ دھوے۔ بلکہ غسل کیئے۔ اب قارئین آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جب یہ گورکھ دھندا 72 سالوں سے جاری ہے تو اب اتنا شور کیوں؟ تو عرض ہے پہلے ایک تو 100 نیوز چینل نہیں ہوتے تھے نہ سوشل میڈیا تھا اور نہ لوگوں میں اتنا سیاسی شعور تھا۔ اس لئے اب شور زیادہ ہے اور یہ شور ہونا بھی چاہیے۔

اصل میں سارے سیاستدان، اپنی اپنی اوقات اور حیثیت کے مطابق ملک کو لوٹتے ہیں۔ ہمارے ٹیکس کے پیسےکو لوٹتے ہیں۔ اور ہم غلام ابن غلام ان کو ڈیفینڈ کرتے ہیں۔ باہر کے ملکوں سے آئے گفٹ یہ ارب، کھرب پتی سیاستدان اونے پونے داموں گھر لے جاتے ہیں۔ اور باہر کے ملکوں کو گفٹ ہمارے ٹیکس کے پیسے سے دیتے ہیں۔ توشہ خانہ قانون میں ترمیم کرنی چاہیے کہ گفٹ کی کل مالیت کا 200 فیصد دے کر گفٹ لے لیں اور یہ پیسہ خزانہ میں جمع ہو اور اس پیسے سے باہر کے ممالک کے لیے گفٹ لئے جائیں تاکہ غریب عوام پر بوجھ پڑنے کے بجائے ان ارب، کھرب پتی سیاستدانوں پر بوجھ پڑے۔

میری ساری جماعتوں کے قائدین، کارکنوں اور ووٹر، سپورٹر سے عرض ہے اپنی اپنی پارٹی کو ضرور سپورٹ کریں لیکن پاکستان یا غریب پاکستانیوں کی قیمت پر نہیں۔ جب ہم لوگ اپنی اپنی پارٹی کی غلط کاریوں پر ان پر تنقید کریں گے تو یہ نہ صرف پارٹی کے لیے اچھا ہوگا بلکہ پاکستان کے لیے بھی بہت اچھا ہوگا۔ یہاں میں پی ٹی آئی کے کچھ با شعور سپورٹر کو شاباش دیتا ہوں کہ وہ پارٹی کی غلطیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ جس کو پارٹی میں شاہد اتنا پسند نہیں کیا جاتا۔ لیکن یہی لوگ جو اپنی پارٹی پر تنقید کرتے ہیں پارٹی کے حقیقی وفادار اور ہمدرد ہوتے ہیں۔ لیکن ہم لوگ اپنی اپنی پارٹی کی حمایت اور مخالف پارٹی پر تنقید میں حد سے ہی گزر جاتے ہیں جو کسی طرح بھی مناسب نہیں۔

میری تمام پارٹیوں کے سپورٹر سے عرض ہے جب معاملہ پاکستان یا غریب پاکستانیوں کا ہو تو پارٹی پیچھے رہنی چاہیے۔ اور پاکستان، پاکستان کا مفاد سب سے اوپر ہونا چاہیے۔

نہ نواز شریف نے ارب، کھرب پتی ہو کر توشہ خانہ سے کروڑوں کی چیزیں لاکھوں میں خرید کر اچھا کیا۔ نہ زرداری نے اور نہ ہی عمران خان نے۔ بلکہ عمران خان پر زیادہ تنقید توشہ خانہ کے تحائف بیرون ملک بیچنے کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ بقول عمران خان میرے تحفے میری مرضی۔ جی آپ صحیح کہہ رہے ہیں آپ کے تحفے آپ کی مرضی۔ قانوناً بھی آپ پر کو قدغن نہیں۔ لیکن اخلاقاً یہ مناسب نہیں ہے۔ اور یہ بات اس وقت اور بھی بری ہو جاتی ہے کہ آپ کا اسلام آباد میں معمولی رقم میں بیچا گیا تحفہ اصل میں دبئی میں بیچا گیا۔

یہاں توشہ خانہ کے حوالے سے دو غیر مسلم صادق اور آمین واقعات قارئین آپ کی نظر کر رہا ہوں۔

ایک امریکی آفیشل گورنمنٹ سطح کی ملاقات کے لئے پاکستان آیا اور ملاقات سے پہلے پروٹوکول آفیسر کو بتایا کہ مجھے کوئی گفٹ نہ دیا جائے۔ خاص کر ہاتھ سے بنے قیمتی کارپٹ کا۔ چونکہ یہ تحفہ بہت بار مجھے مل چکا ہے اور ہر بار میں اسے اپنی گاڑی میں اپنے ملک کے توشہ خانہ لے جاتا ہوں اور کندھے پر رکھ کر پارکنگ سے توشہ خانہ جمع کروانا پڑتا ہے جو تکلیف دہ ہوتا ہے۔

دوسرا واقعہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے وزیراعظم مودی کا ہے۔ جس کو توشہ خانہ والوں نے بتایا کہ آپ کے کافی تحائف جمع ہو گئے ہیں کیا کرنا ہے؟ مودی نے کہا کہ اوپن مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کرکے رقم بچیوں کی تعلیم پر خرچ کی جائے۔

اور قارئین جماعت اسلامی پاکستان کے سابقہ امیر سید منور حسن صاحب کی صاحبزادی کی شادی کا واقعہ تو بہت مشہور ہے کہ ان کی بیٹی کی شادی پر پاکستان کی بہت اہم سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی اور منور حسن صاحب کی بیٹی کو قیمتی تحائف دیئے، منور حسن صاحب نے بیٹی سی کہا کہ چونکہ میں امیر جماعت ہوں اس لیے یہ اتنے بڑے لوگ شادی میں آئے اور اتنے قیمتی تحائف دئیے۔ تو یہ تحائف میرے عہدے کی وجہ سے ملے اور میرا خیال ہے ان تحائف پر جماعت اسلامی کا حق ہے۔ تربیت یافتہ بیٹی نے کہا۔ آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں اور سارے تحائف منصورہ بیت المال میں جمع کروا دیئے۔

قارئین۔ آپ پی پی، پی ٹی آئی، اور ن لیگ کے ووٹر، سپورٹر بعد میں ہو۔ سب سے پہلے آپ مسلمان ہو۔ پھر پاکستانی۔ جہاں آپ کی پارٹی اسلام یا پاکستان سے ٹکرائے تو پارٹی کو چھوڑ کر اسلام اور پاکستان کو تھام لو۔

Check Also

Chyontiyan Kaise Bhagaain?

By Muhammad Qasim Saroya