Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shafaqat Abbasi
  4. PTI 9 May Se Pehle Aur Baad

PTI 9 May Se Pehle Aur Baad

پی ٹی آئی 9 مئی سے پہلے اور بعد

پاکستان کے لوگ ن لیگ اور پی پی کی کرپشن، خاندانی سیاست، بیرون ملک اور اندرون ملک جائز اور نا جائز اربوں اور کھربوں کے اثاثوں سے تنگ تھے، لیکن یہ دو جماعتیں باریاں لیتی لیتی۔ تین تین بار حکومتیں کر گئیں، مگر عوام کا حال بد سے بد تر ہوتا گیا، تو عام آدمی کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے مڈل کلاس، اپر مڈل کلاس اور خوشحال طبقہ پہلی بار تبدیلی کے لئے جدوجہد اور خواہش کرنے لگا۔ اسی طرع عمران خان کو سیاسی جدوجہد کرتے 22 سال ہو گئے تھے مگر 2013 تک چند سیٹیں ہی لے سکا۔

پھر عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ، الیکٹیبلز اور ان دیکھی قوتوں کے ساتھ ساتھ ن لیگ اور پی پی سے تنگ عام آدمی کی طاقت سے حکومت مل گئی۔ مگر عمران خان کو مجھ سمیت بہت سے لوگ وزیراعظم یا حکمران سے بہت اوپر لیڈر سمجھ رہے تھے۔ مہاتیر محمد، طیب اردوان اور نیلسن منڈیلا، کی طرع کا حکمران جنہوں نے اپنے ملکوں اور عام آدمی کی زندگی تبدیل کی۔ مگر عمران خان ایک حکمران اور وزیراعظم ثابت ہوئے جس طرح معین قریشی، ظفر اللہ جمالی اور بہت سے دوسرے لوگ وزیراعظم بنتے رہے۔

مگر وہ عوامی توقعات پوری نہ ہو سکیں جو عام آدمی نے کپتان اور پی ٹی آئی سے وابستہ کیں تھیں، ساڑھے تین سالہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں پی ٹی آئی کی ناتجربہ کاری کے ساتھ ساتھ بہت سی حماقتیں بھی ہوئیں۔ کچھ لوکل اور کچھ انٹرنیشنل۔ انٹرنیشنل حماقتوں میں سی پیک کو سست کرنا، سعودی عرب اور دوسرے عرب دوست ممالک کو ناراض کرنا، ملائشیا اور ترکیہ کے ساتھ مل کر اسلامی چینل کا پروگرام بنانا اور سعودیہ کے دباؤ پر پیچھے ہٹ جانا اور روس جانا اور امریکہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار قرار دینا اور پھر اسی امریکہ سے مدد طلب کرنا۔

لوکل حماقتوں میں اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی، عدلیہ کی تقسیم، اسٹیبلشمنٹ میں اہم ترین پوسٹوں پر خاص بندوں کی تعیناتی کی خواہش، اور خاص کر جنرل عاصم منیر جیسے آدمی کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے اس بات پر ہٹانا کہ جنرل عاصم منیر نے اپنی ڈیوٹی اور ملک سے وفاداری نبھاتے ہوئے عمران خان کی ناک کے نیچے ہوتی کرپشن سے آگاہ کیا۔ خان نے اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیرنے کے بجائے جنرل عاصم منیر کو ہی اہم ترین عہدے سے ہٹا دیا۔

اور پھر حماقت پر حماقت جنرل عاصم منیر کی چیف آف آرمی سٹاف تعیناتی روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا اور لاہور سے پنڈی جلوس لانا، اور پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں توڑنا اور قومی اسمبلی سے باہر آ کر اپنی کرسی راجہ ریاض کو دینا۔ یہ سب اور اس کے علاوہ بہت سی لوکل حماقتیں تھیں، مگر ان سب پر بھاری 9 مئی تھا۔ جو پی ٹی آئی کا تیسرا اور آخری ہارٹ اٹیک ثابت ہوا۔ جس کے بعد پی ٹی آئی ابھی تک ونٹیی لیٹر پر ہے، معلوم نہیں بچ پاتی ہے کہ نہیں، جو پی ٹی آئی نے کیا، آج تک کوئی جماعت نہیں کر سکی۔

جو 9 مئی کو ہوا وہ نہ ملکی مفاد میں ہے اور نہ پی ٹی آئی کے مفاد میں، اس میں کسی بےگناہ کو سزا نہیں ملنی چاہیے اور کوئی گناہ گار بچنا نہیں چاہیے۔ پی ٹی آئی اور تمام سیاسی جماعتوں سے عرض ہے کہ اپنی کرپشن زدہ سیاست کے لیے اداروں کو بدنام نہ کریں۔ ادارے خاص کر آرمی اور عدالتیں ملک کی میخیں ہیں ان سے ملک جڑا ہوا ہے۔ یہ بھی انسانی مخلوق ہیں ہم میں سے ہیں اسی معاشرے کا حصہ ہیں ان سے بھی غلطیوں کا اعتمال ممکن ہے۔ مگر 9 مئی کو جو ہوا وہ کسی بھی طرح ملکی یا اداروں کے مفاد میں نہیں۔ اور پی ٹی آئی کے مفاد میں تو بالکل بھی نہیں۔

یہاں ایک مثال دیتا چلوں کرکٹ میچ میں ایمپائر کا فیصلہ بہت بار غلط بھی ہوتا ہے۔ اور 5 منٹ بعد کھلاڑی کو ٹی وی پر سلو موشن سے پتہ بھی چل جاتا ہے کہ فیصلہ غلط تھا۔ مگر کوئی کھلاڑی آج تک ایمپائر کو مارنے، جلانے، یا گالی دینے کے لیے واپس گراؤنڈ میں نہیں گیا۔ یہ اس لیے کہ ایک تو ایمپائر بھی انسانی مخلوق ہے جس سے غلطی کا اعتمال ممکن ہے اور دوسرا سپورٹ مین سپرٹ کے تحت کرکٹ میچوں کا پرامن انعقاد ہوتا رہے۔

یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ مارشل لاء ادوار چونکہ کوئی مستقل حل نہیں تھے۔ اور آج کل کی جمہوری دنیا میں چونکہ دنیا کیساتھ چلنا پڑتا ہے اور مارشل لاء کی کوئی پذیرائی نہیں ہوتی، ورنہ اگر عوام کی خوشحالی اور ملک کی ترقی دیکھی جائے تو ایوب خان، ضیاءالحق اور پرویز مشرف کے ادوار کسی بھی جمہوری حکومت کے مقابلے میں زیادہ بہتر تھے، قارئین بہت سے لوگ یہاں اختلاف بھی کریں گے کہ مارشل لاء بیرونی قوتوں کے مقاصد کے لیے لگتے رہے ہیں۔

اور ان مقاصد کی تکمیل کے لئے باہر سے ڈالر بھی آتے ہیں تو وہ ترقی اور خوشحالی وقتی ہوتی ہے، مثلاً روس، امریکہ گوریلا جنگ۔ ضیاءالحق کو لائی، اور پھر روسی شکست کے بعد اس خطے سے امریکہ کی جیت کی صورت میں واپسی، اور خطے میں پرورش پانے والے اس وقت کے مجاہدین اور آج کے دہشت گرد افغان طالبان، اسامہ بن لادن وغیرہ کی۔ امریکہ سے جنگ کے لیے مشرف کا آنا یا لانا، ان سب کے باوجود عام آدمی جو کل آبادی کا 90 فیصد ہے ان تینوں فوجی ادوار سے مطمئن اور خوش تھا۔

چونکہ ہر چیز کا عام آدمی کی پہنچ میں ہونا، مہنگائی کی شرح بہت کم ہونا، کاروباری طبقے کا خوشحال ہونا، اطمینان اور خوشحال کی وجوہات تھیں۔ جمہوریت اور خاص کر 2018 سے 2023 کی جمہوریت ساڑھے تین سال پی ٹی آئی اور ڈیڑھ سال پی ڈی ایم نے عوام کا جینا حرام کر دیا، مہنگائی جو کبھی ڈبل فگر میں نہیں گئی تھی۔ آج 45 فیصد ہے جو خطے میں سب سے زیادہ ہے اتنی زیادہ کہ ڈیفالٹ شدہ سری لنکا سے بھی زیادہ مہنگائی پاکستان میں ہے۔ ہماری کرنسی خطے میں سب سے کمزور کرنسی ہے۔ افغانستان، بھوٹان سے بھی کمزور۔

قارئین ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے جو مہنگائی 1947 سے 2018 تک، تقریباً 72 سالوں میں نہیں ہوئی۔ اس سے کہیں گناہ زیادہ مہنگائی 2018 سے 2023 کے 5 سالوں میں ہوئی یہاں میں صرف دو تین چیزوں کی مثال دوں گا۔ ککنگ آئل، کھانے کا تیل 1947 سے 2018، 72 سالوں میں 5 کلو کا ڈبہ 850 روپے تک پہنچا، اور 2018 سے 2023، پانچ سالوں میں 3500 روپے کا ہوگیا، اسی طرع آٹا جو 72 سالوں میں 35 روپے کلو تک پہنچا۔ وہ 2018 سے 2023 کے 5 سالوں میں 180 روپے کلو تک ہوگیا۔

اسی طرح ضروریات زندگی کی ہر چیز ان 5 سالوں میں عام آدمی کی خرید سے باہر ہوگئی۔ ملک میں مارشل لاء ہو، جمہوریت ہو، جمہوری مارشل لاء ہو، یا صدارتی نظام 90 فیصد عام آدمی کو کوئی غرض نہیں۔ عام آدمی کا مسئلہ تین وقت کی باعزت روٹی، اپنی چھت، سستی بجلی اور سستی گیس، اچھی اور معیاری تعلیم اور علاج۔ بس یہ چند چیزیں جو عام آدمی کو دے وہ 90 فیصد عام آدمی کا ہیرو ہے چاہے وہ ایوب خان ہو، ضیاءالحق ہو یا مشرف۔

یا آنے والے وقت میں جنرل، صاحب ہوں۔ یا کوئی سیاستدان ہو یا ٹیکنو کریٹ، اور جو یہ چیزیں عام آدمی کو نہ دے سکے چاہے وہ، نواز شریف ہو، زرداری ہو، یا عمران خان وہ 90 فیصد عام آدمی کی نظر میں زیرو ہے۔ قارئین میرا یہ کالم کسی پارٹی وابستگی سے ہٹ کر صرف پاکستانی بن کر پڑھنا۔ تو بات دل میں اترے گی۔ چونکہ میری بھی پارٹی وابستگی رہی ہے اور ہے۔ اور ووٹ بھی دیتا ہوں لیکن یہ سب صرف پاکستانی بن کر لکھا ہے۔ آپ بھی صرف پاکستانی بن کر پڑھیں۔

Check Also

Itna Na Apne Jaame Se Bahir Nikal Ke Chal

By Prof. Riffat Mazhar