Pakistan Ka Nizam e Taleem, Schoolon Ki Nijkari
پاکستان کا نظام تعلیم، سکولوں کی نجکاری
پاکستان میں پورے ملک کا نظام تعلیم ایک ہونا چاہیے۔ پاکستان میں مختلف قسم کے تعلیمی نظاموں سے پاکستانی معاشرے کی تقسیم بہت تیزی سے ہو رہی ھے۔ کہیں گورنمنٹ، کہیں پرائیویٹ، کہیں اعلیٰ درجے کے پرائیویٹ سکولز اور مدرسے۔ ان سب جگہوں سے اتنے مختلف خیال لوگ پروان چڑھتے ہیں کہ ان سب کو ایک دوسرے کی کوئی سمجھ نہیں آتی۔ پھر آگے جا کر یہ سب لوگ نوکریاں اور کاروبار بھی اسی تعلیمی تفریق کی بنیاد پر کرتے ہیں اور نتیجتاً یہ تفریق دن بدن بڑھتی جاتی ھے۔
یہ گورنمنٹ کا کام ھے کہ پورے پاکستان میں ایک نصاب ہو اور ایک ہی طرح کا تعلیمی نظام، تعلیمی سہولیات اور ایک جیسا ماحول ہو۔ تاکہ ایک جیسے تعلیمی نظام سے فارغ التحصیل عام لوگوں کے بچے بھی اچھی نوکریاں اور اچھے کاروبار کر سکیں۔ اس سلسے میں حکومت کو بجٹ کا ایک خاطر خواہ حصہ تعلیم کے لئے مختص کرنا ہوگا۔ اگر ہمیشہ کے لئے نہیں تو کم از کم دس سال کے لیئے تعلیمی ایمرجنسی لگا کر بجٹ کا 25 فیصد تک تعلیم پر لگانا چاہیے۔ ابھی پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شمار ہوتا ھے جو تعلیم پر بجٹ کا بہت کم بلکہ نا ہونے کے برابر خرچ کرتے ھیں۔ 2سے تین فیصد۔ شاید اس سے بھی کم اور جن قارئین کو میرا 25 فیصد کا فگر زیادہ لگے وہ ملائیشیاء کی تعلیمی ایمرجنسی کا مطالعہ کریں۔ دنیا میں جتنے بھی ممالک ترقیاتی یافتہ ہوئے ہیں وہاں اہم کردار تعلیم کا ھے۔
ایک اور بلکہ بہت سادہ طریقے سے گورنمنٹ سکولز کو بہتر بلکہ بہترین کیا جاسکتا ھے کہ قومی اسمبلی میں قانون سازی کے زریعے یہ قانون پاس کیا جائے کہ ہر ایم پی اے، ایم این اے وفاقی اور صوبائی وزراء۔ سیئنٹر اور گریڈ 16 سے 22 تک کے آفیسرز اپنے بچوں کو صرف سرکاری سکولوں میں ہی داخل کر سکتے ہیں۔ جس نے بچے پرائیویٹ پڑھانے ہوں وہ اپنی پوزیشن سے استعفیٰ دے کر یہ کام کرے۔ یقین جانیں ایسا کرنے سے سرکاری سکولز ہفتوں میں نہیں دنوں میں ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ جب تک یہ سب نہیں ہوتا موجود صورتحال کو بہتر کیا جاسکتا ھے مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ جدید تعلیم کا اجراء اور پاکستان کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو سہولیات کی فراہمی سے۔ چونکہ دینی مدارس اور پرائیویٹ سکولوں نے حکومت کا آدھا تعلیمی بوجھ اٹھایا ہوا ھے۔
قارئین آپ حیران ہوں گے کہ مدارس، سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے باوجود تین کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو مناسب فیس تک محدود کرنا حکومت کی ذمہ داری ہونی چاہئے تاکہ عام آدمی بھی اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دے سکے۔
پنجاب میں کچھ گورنمنٹ سکولز کی نجکاری یا پرائیویٹ این جی او کو دینے کے معاملے میں سکول انتظامیہ، ٹیچرز، والدین اور بچے بہت پریشان ہیں۔ کچھ سکولوں میں ہڑتال بھی کی جارہی ھے۔ گورنمٹ کو ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے سب سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا اور سب متعلقہ لوگوں کی مشاورت سے یہ کام کیا جاتا تو یہ صورت حال نا ہوتی۔
پنشن کے معاملات پر لاہور میں پر امن اساتذہ کرام پر تشدد کسی صورت قابل قبول نہیں۔ تشدد کرنے والے پولیس اہلکار اور تشدد کا حکم دینے والے آفیسرز بھی آخر کسی استاد سے پڑھ کر ہی یہ نوکریاں کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔
مندرجہ ذیل واقعہ سے قابل احترام اور ترقی یافتہ معاشروں میں استاد کےحترام اور مقام کا اندازہ کیا جاسکتا ھے۔ پاکستان کے دانشور اور استاد اشفاق احمد صاحب کسی ٹریفک چالان کے لیئے سویڈن کی عدالت میں پیش ہوئے۔ جج نے پوچھا آپ کیا کرتے ہیں۔ جب انہوں نے کہا کہ میں استاد ہوں تو جج سمیت عدالت میں موجود ہر آدمی استاد کے احترام میں کھڑا ہوگیا۔