Budget Aur Aam Aadmi
بجٹ اور عام آدمی
پاکستان کے گزشتہ سارے بجٹ جس طرح پیش کیئے گئے اسی طرح بجٹ۔ 2024 بھی پیش کیا گیا۔ پہلی بات تو یہ ھے بجٹ پیش کرنے والی مخلوقات کا عام آدمی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بجٹ پیش کرنے والے چاہے ن لیگ سے ہوں۔ پی پی سے یوں یا پی ٹی آئی سے یہ سب لوگ ارب اور کھرب پتی الیٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔ نا ان لوگوں نے کبھی بھوک دیکھی۔ نا سرکاری ہسپتال میں علاج کی غرض سے دنیا میں جہنم دیکھی۔
جی ہاں سرکاری ہسپتالوں میں علاج کسی جہنم سے کم نہیں۔ نا اس کلاس کے بچوں نے کبھی سرکاری سکولوں میں قدم رکھا اور نا اس کلاس نے کبھی لوڈ شیڈنگ دیکھی۔ مختصر یہ کہ بجٹ پیش کرنے والی مخلوقات کا عام آدمی سے کوئی تعلق کوئی سروکار نہیں۔ اسی لئے اس کلاس کو عام آدمی کی مشکلات کا اندازہ ہی نہیں۔ جب مشکلات کا اندازہ ہی نا ہو تو مشکلات کا حل کیوں اور کیسا؟
بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ تو کیا گیا مگر 50000 تنخواہ پر ٹیکس ڈبل کر دیا گیا۔ سالانہ 12 لاکھ مطلب ایک لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ یا کاروباری آمدن ٹیکس سے مستثنی ہونی چاہیے۔ ایک عام آدمی، غریب سے غریب آدمی بھی بجلی، گیس، موبائل فون کی خریداری، لوڈ، اور پھر کال پر ٹیکس دیتا ھے، صابن، شیمپو سےلے کر ہر ہر چیز پر ٹیکس دیتا ھے۔ تو سالانہ 12 لاکھ اور ماہانہ آیک لاکھ تنخواہ دار یا کاروباری جب ان ڈائریکٹ اتنے ٹیکس بجلی گیس۔ موبائل لوڈ اور کال، گروسری اور ضروریات زندگی کی ہر ہر چیز پر دیتا ھے تو کیوں آیسے غریب آدمی کو ڈائریکٹ ٹیکس میں لایا گیا۔ جن قارئین کو علم نہیں ان کے لیئے عرض ھے سالانہ 6 لاکھ سے زائد مطلب 50 ہزار ماہانہ تنخواہ یا کاروباری آمدن پر ڈائیریکٹ ٹیکس لگا دیا گیا۔
دوسری طرف کا حال دیکھیں گزشتہ روز ایک ٹی وی پروگرام میں ایک صحافی نے 20 ایسے ارب، کھرب پتی سیاسدانوں کے نام اور گزشتہ سال کا ٹیکس ٹی وی سکرین پر دکھایا اور پھر اس صحافی نے جب یہ بتایا کہ میرا گزشتہ سال کا ٹیکس ان 20 ارب، کھرب پتی سیاستدانوں کے مجموعی ٹیکس سے زیادہ تھا۔ کسی سیاستدان کا دو لکھ۔ کسی وزیر کا چار لاکھ اور کسی ایم این اے کا 80 ہزار۔ کیا ایف بی آر کو نہیں پتہ کہ ایک ایم پی اے یاایم این اے اپنی الیکشن مہم پر کروڑوں روپے خرچ کرتا ھے۔
پاکستان اور بیرون پاکستان اربوں کی جائیدادیں، کروڑوں کی لگژری گاڑیاں، فائیو سٹار ہوٹلوں میں قیام اور "عیاشی" اور کھابے دبئی اور لندن سے شاپنگ اور ٹیکس چند لاکھ ہا چند ہزار۔ یہ کیا ھے؟ ایف بی آر کو اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ اشرافیہ اور ارب، کھرب پتی سیاستدانوں سے پورا پورا ٹیکس لینا ہوگا۔ اگر ایف بی آر کے موجودہ سسٹم میں اشرافیہ اور سیاسدانوں پر ہاتھ ڈالنے کی جرآت نہیں ھے تو ایف بی آر کسی سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کے حوالے کی جائے۔
بجٹ میں پراپرٹی اور تعمیرات کو مشکل ترین بنا کر تعمیرات سے منسلک 40 انڈسٹری اور اس انڈسٹری کے متعلقہ لاکھوں غریب مزدوروں سے بچوں کی روٹی چھینی جا رہی ھے۔ حکومت کو پراپرٹی کی خرید وفروخت اور تعمیراتی شعبے کے حوالے سے بجٹ میں کئیے گئے اپنے فیصلوں پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے تاکہ عام آدمی، غریب آدمی سے دو وقت کی روٹی نا چھینی جائے۔
سیمنٹ، سٹیل اور تعمیرات کے شعبے سے وابستہ ہر چیز سستی کی جائے۔ فائلر اور نان فائلر کو سوشل میڈیا پر مذاق بنا دیا گیا۔ ایسے ایسے لطیفے بنائے گئے کہ پورا بجٹ ہی مزاق بن کر رہ گیا۔ ایک طرف عام آدمی کی دو وقت کی روٹی مشکل سے مشکل ترین بنا دی گئی اور دوسری طرف قومی اسمبلی اور سینیٹ کے بجٹ میں اضافہ کیا گیا۔
45 ڈگری گرمی میں لوڈ شیڈنگ سے مرتا عام آدمی جب پورے پاکستان سے اپنے منتخب نمائندوں کو ٹھنڈے ٹھار ائیر کنڈیشنڈ فائیو سٹار ہوٹلوں سے اچھے سینٹ اور قومی، صوبائی اسمبلی، ہالوں میں موٹے موٹے اٹالین سوٹوں میں دیکھتا ھے تو عام آدمی کا خون کھولتا ھے۔ دعا ھے یہ کھولتا خون کبھی سڑکوں پر نا آ جائے۔
گرمیوں میں سوٹ پہننے پر پابندی ہونی چاہیے، جیسے شیخ حسینہ واجد نے بنگلہ دیش میں کیا تھا۔ دوسرا ہر قومی، صوبائی اور سینیٹ اجلاس میں ایک، ایک گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جائے تاکہ عام آدمی کو احساس ہو کہ یہ مخلوق بھی ہم میں سے ھے اور اس اشرافیہ کو بھی احساس ہو کہ لؤڈ شیڈنگ سے عام آدمی کی کیا حالت ہوتی ھے 45 ڈگری گرمی میں۔
تمام منتخب نمائندے ارب اور کھرب پتی ہیں شاہد چند ایک غریب (کروڑ پتی) بھی ہوں۔ تو ان سب کی اسلام آباد میں لاجز فری ائیر ٹکٹ، فری بجلی، گیس، فون سرکاری گاڑیاں مفت پٹرول سب بند کیا جائے۔ یہ سب اتنے امیر لوگ ہیں کہ ان کو یہ ساری چیزیں مفت نا بھی ملے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی اشرافیہ کی مراعات پر سالانہ 17 ارب ڈالر، جی ہاں 17 ارب ڈالر خرچ ہوتے ہیں اور صدر وزیراعظم اور پوری قوم صرف ایک ارب ڈالر کے لیئے ائی ایم ایف کے آگے چکی بلکہ لیٹی ھے۔
کیا اس 17 ارب ڈالر سے اشرافیہ پر 7 ارب ڈالر خرچ کرکے دس ارب ڈالر سالانہ بچت کی جاسکتی ھے؟ جی ہاں اگر ہمارے حکمرانوں کو پاکستان اور عام پاکستانی سے دلی ہمدردی اور محبت ہو تو یہ کیا جا سکتا ھے۔
امپورٹ اور ایکسپورٹ پر بھی رونا آتا ھے، امریکہ کے ہاتھوں تباہ شدہ ویتنام آج سے 20 سال پہلے پاکستان سے آدھی ایکسپورٹ کرتا تھا۔ آج ویتنام کی ایکسپورٹ 400 ارب ڈالر ھے اور پاکستان کی صرف 30 ارب ڈالر۔
ٹیکس کولیکشن پر ماتم کرنے کا دل کرتا ھے پورے پاکستان سے زیادہ ٹیکس انڈیا کا ایک شہر پونا اکٹھا کرتا ھے۔ ٹیکس نیٹ پر دل روتا ھے۔ 25 کروڑ پاکستانی آبادی سے ایکٹو ٹیکس پیئر 27 لاکھ جی ہاں صرف 27 لاکھ افراد نے 25 کروڑ آبادی کا بوجھ اٹھایا ہوا ھے۔
پاکستان کے پورے سسٹم کو ایک تیزابی غسل کی ضرورت ھے۔ یہ غسل آج کسی نے دیا یا کل یا دو، پانچ یا دس سال بعد۔ جب تک یہ غسل نا دیا گیا۔ پاکستان میں سیاسی، معاشی۔ معاشرتی، حکومتی بہتری کے کوئی چانس نہیں دکھتے۔ ہاں کوئی معجزہ ہو جائے تو الگ ںات ھے۔