Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sardar Shokuat Iqbal
  4. Di Azane Kabhi Europe Ke Kalisaon Main

Di Azane Kabhi Europe Ke Kalisaon Main

دی ازانیں کبھی یورپ کے کلیساوں میں

تاریخ کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ اپنے آپ کو دھراتی ہے اور گزشتہ ہفتے تاریخ نے پھر اپنے آپ کو 86 سال بعد دہرایا۔ جب ترکی کی اعلی عدلیہ نے آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کرنے کا تاریخی فیصلہ دیا۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہم آیا صوفیہ کی تاریخ پہ نظر ڈال لیتے ہیں۔

آیا صوفیہ کو یونانی آرتھوڈک عیسائیوں نے 537 عیسوی میں چرچ کیلئے بنایا تھا یہ اس وقت کے لحاظ سے سب سے شاندار عمارت تھی، 1453 تک یہ مختلف عیسائی فرقوں کے نگرانی میں رہی، قسطنطینہ کے فتح کے بعد سلطان محمد فاتح نے عیسائیوں کو اس کی قیمت ادا کی اور مسجد میں تبدیل کیا اس کے بعد سلطان محمد نے 1611 میں اس کے قریب تاریخی نیلی مسجد بھی تعمیر کی، تقریباً 500 سال تک یہ عمارت مسجد تھی 1919ء میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ترکوں نے آزادی کیلئے کوشش شروع کی اور تین سال کے عرصے میں تباہ شدہ سلطنت عثمانیہ کے راکھ سے ترکی کا قیام عمل میں لایا تو بد قسمتی عالمی شازشوں اور خلافت سے خائف ممالک کی خواہشات کی وجہ سے ترکی پر لبرل حکومت آگئی چونکہ یہ آیا صوفیہ کو سلطان محمد نے خرید کر مسجد کے لئے وقف کر دیا تھا اس سے یہ دوبارہ چرچ نہیں بن سکتی تھی اس لئے 1935 میں ترکی اتاترک حکومت نے اس تاریخی مسجد کو میوزیم میں تبدیل کیا۔

واضح رہے اس کے لئے ہر سال تقریبا 33 لاکھ لوگ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور یورپی ممالک سے سیر و تفریح کیلئے آتے تھے جن میں ذیادہ تعداد پہلی جنگ عظیم میں اس مقام پر ان ممالک کے لڑنے والے فوجیوں کی ہوتی تھی، صدر صدر اردگان نے اپنے انتخابی منشور میں جب آیا صوفیہ کو مسجد میں بدلنے کا اعلان کیا تو بظاھر ہر طرف خوشی بنائی مگر موجودہ عالمی حالات میں یہ ممکن نظر نہیں آتا تھا مگر رجب طیب اردگان دھن کے پکے ثابت ہوئے ان کا یہ اقدام ترکی کو اسلامی ریاست بنانے کا عزم جو اس نے اٹھایا ہے اس کی طرف ایک کوشش بھی ہوسکتی ہے، لیکن اس وقت ترکی کی اس مسئلے پہ امریکہ روس یونان اور فرانس سے شدید کشیدگی چل رہی ہے یہ وہی مہذب دنیا ہے جس نے سپین میں مسلمانوں کے زوال کے بعد تین ہزار مساجد کو گھوڑوں کے اصطبل اور شراب خانوں بدل دیا مسجد قرتبہ آج تک میوزیم بنی ہے۔

بہرحال دیکھتے ہیں کہ اس اقدام پر ان کا کیا ردعمل آتا ہے۔ مگر اتنی تاریخی کامیابی پہ اور اغیار کے شدید درعمل کے باوجود مسلم ممالک کی بالخصوص پاکستان کی خاموشی اور معنی خیز ہے حتی کہ اس اقدام کا خیر مقدم تک نہیں کیا گیا جو لمحہ فکریہ ہے۔ اس مسرت موقع پہ صدر طیب اردگان نے قوم سے تاریخی خطاب کرتے ہوئے کہا آیا صوفیہ کا احیاء مسجد اقصی کی آزادی کے حصول کا نشان راہ ہے آیا صوفیا کا احیا دنیا کے چہاروں طرف کے مسلمانوں کی خاموش عہد سے نکل کر اپنے عزم پر کھڑے ہونے کی آواز ہے آیا صوفیا کا احیا نا صرف مسلمانوں بلکہ تمام مظلوموں اور استحصال کا شکار انسانوں کی دوبارہ امید جگانے کی چنگاری ہے۔ یہ ھمارے عالی شان دور کی تاریخ کی نشانی ہے۔ آیا صوفیا کا احیا بخارا سے اندلس تک ھمارے تہزیبی شہروں کو دی گئی قلبی سلامی ہے۔ اردگان کے جزبات اور ان الفاظ سے ان کے آئندہ کے لالحہ عمل کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔

بلاشبہ اس وقت اردگان امت مسلمہ کی امیدوں کا محور بن چکے ہیں انھوں نے ترک میڈیا اور شوبز انڈسٹری کو جس طرح بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے ارتغل پایہ تخت سلطان عبدلحمید کوة العمارہ جیسی سیریل بنا کر ہالی ووڈ کی دھائیوں کی پراپوگنڈہ وار کو یکسر الٹ دیا اور صرف ڈرامہ سیریل ارتغل کو ہی دنیا بھر کے مسلمانوں نے جو پزیرائی بخشی اس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی اس نے جزبہ جہاد کو ایک بار پھر سے امت کے نوجوان طبقے کی روح میں پھونک دیا۔ اپنے عہد رفتہ کا احوال دیکھ کر ان کو ایک بار پھر سے خلافت کی طرف راغب ہونے لگے جو آنے والے شاندار وقت کی نوید ہے۔ اردگان نے جس طرح کشمیر فلسطین برما کے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کی وہ لائق تحسین ہے۔ اب اردگان کے2023 کو معائدہ لوزان کے خاتمے کے بعد مزید طاقتور بن کر ابھریں گے جس کے بعد ترکی کی آئندہ کی سمت کا اندازہ کیا جا سکے گا۔

Check Also

Richard Grenell Aur Pakistan

By Muhammad Yousaf