Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sana Hashmi
  4. Ikhlaqiat Ke Maah O Saal

Ikhlaqiat Ke Maah O Saal

‏اخلاقیات کے ماہ وسال

امریکہ میں ہونے والے صداراتی انتخابات پر دنیا کی توجہ مرکوز ہوتی ہے، اور اسکی سادہ اور آسان وجہ یہ ہے کہ دنیا کی خارجہ پالیسز ملکی اور بین الاقوامی رابطے بھی اس ہی کے گرد اپنی ترجیحات کو طے کرتے ہیں، ریاست ہائے متحدہ کے دو پارٹی سسٹم کو جدید طرز سیاست کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے، لیکن اس بحث کو کبھی اور کر لیں گے اس وقت ریاست ہائے متحدہ کے صدراتی انتخابات 2020 کے لئے ڈیموکریکٹ اور گانگریس کے درمیان مباحثوں کا سلسلہ جاری ہے، آپکو شاید حیرانگی ہو، لیکن یہ سچ ہے جس طرح سے امریکہ میں انتخابات سے پہلے ڈی بیٹ کی جاتی ہے یہ جدید دنیا میں ایک مضبوط نظام حکمرانی کے تصور کو جلا بخش رہا ہے۔

میرے نزدیک یہ بھی ایک بحث طلب معاملہ ہے، ناقدین کے مطابق امریکہ میں ٹو پارٹی سسٹم امریکی عوام کی اپنی پسندنہیں، اور صدارتی نظام کے ذریعے منتخب صدر گو کہ ایک پورے شفاف انتخابی عمل سے گزرتا ہے، لیکن انٹرنیشل اسٹیبلیشمنٹ بھی اس پورے عمل کے پیچھے پوری قوت کے ساتھ ہوتی ہے، یہ تمہید مشاہداتی تجزیے ہیں۔ میرے لئے یہ اہم ہے کہ امریکہ میں ہونے والے انتخابات، اپنی شفافیت کے اعتبار سے دنیا کے لئے ایک قابل تقلید عمل ہے، اور اس عمل سے پہلے کی جانے والی دوجماعتوں کے مابین ہونے والی بحث اور بحث میں پارٹی پالیسز اور منشور کی آگاہی یقینا ایک دلچسپ طریقہ ہے جو کسی بھی ووٹر اور سپوٹر کو اسکے فیصلے کے اختیار کے استعمال پر مطمئین کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔

گزشتہ روز، امریکہ میں صدارتی انتخابات کے امیدوار جو بائیڈن اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین ڈی بیٹ ہوئی اور اس ڈی بیٹ میں ایک دوسرے پر شدید الفاظ کا تبادلہ ہوا، مبصرین اور تجزیہ کاروں کی رائے میں یہ تکرار نہیں بلکہ ایک حیرت انگیز اور افسوسناک مباحثہ تھا، جس میں ڈی بیٹ کے تشخص کی توہین ہوئی، جہاں مخالفین نے ایک دوسرے کو ہتک آمیز جملوں سے نواز، اور ذاتیات پر حملہ کیا گیا، اور پوری دنیا میں اس کی جگ ہنسائی ہوئی جو اس ڈی بیٹ اور ریاست ہائے متحدہ کے لوگوں کی لئے باعث شرم ہے۔ یہاں تک تو بات شاید آپ سب کے علم ہو، لیکن اسکے بعد جو میں کہنا چاھتی ہوں وہ ہمیں سمجھنا ہوگا؟ اس وقت دنیا میں تحقیق ہورہی ہے کہ باحیثیت مجموعی انسان اس وقت اپنے کسی دور سے گزر رہاہے، اسی تحقیق پر انسانی رویے اور حالات کا جائزہ لیا جارہا ہے، اور دنیا کے قدآور ممالک کی عوام کو بھی اس ریسرچ میں جانچا جا رہا ہے۔

میرے مشاہدے کےمطابق، اس وقت دنیا ایک جذباتی فکر کے دور سے گزر رہی ہے، عین ممکن ہے کہ میں تجزیہ غلط ہو، لیکن دنیا کے چند ممالک کے صاحب منصب افراد پر نظر ڈالیں تو آپ بھی شاید میری تائید کریں۔ شمالی کوریا کے کم جونگ ان، ہو یا بھارت کے نریندری مودی، یا امریکہ کے ڈونلڈ ٹرمپ، یہ سب جذباتی اوراضطرابی سیاست دانوں کی فہرست میں نمایاں ہیں، اور انکے فیصلے بھی عوام کو جذباتی فیصلوں کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ یہ سب تحریر کرنے کا مقصد یہ کہ جو کچھ امریکہ میں صدارتی انتخاب کی ڈی بیٹ کے دوران ہوا یہ سب پاکستان میں میں ہر روز اور ہر لمحے دیکھنے کو ملتا ہے ہمارے سیاست دان الزامات عائد کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے اور ہم باحیثیت قوم اس پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے کیونکہ انفرادی حثیت میں اگر ہمیں کسی سے کوئی مخاصمت ہو یا ہم اپنی رائے کو کسی پر تھوپنا چاھییں تو چیخنا، بات کو کاٹنا، اخلاق سے گری ہو زبان استعمال کرنا ہم اپنا استحقاق سمجھتے ہیں اور مجھے یہ لکھنے میں عار نہیں کہ ہم اپنے سیاست دانوں سے بھی دو ہاتھ آگئے ہی نظر آئیں گے۔

اخلاقی پستی امریکہ میں ہو یا یوگنڈا یا پاکستان میں یہ ہر جگہ ہی رد کی جاتی ہے، لیکن مجھے افسوس یہ ہے اسکی تقلید کرنے والے مضبوط اور اہم عہدوں پر فائز ہیں، تجزیہ کاروں کی رائے میں انڈیا کے دو بار منتخب ہونے والے نریندرمودی 2024 تک اس منصب پر فائز رہیں گے، جبکہ تجزیہ کاروں کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل ہوگی، کیونکہ انکے مدمقابل جوبائیڈن قدرے کمزور دیکھائی دے رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان کے تناظر میں بھی عمران خان کو باحیثیت وزیراعظم اگلے پانچ سال کی نوید دی جارہی ہے، اب اس تجزیے کی روشنی میں اخلاقیات ان ماہ وسال میں کہاں ہوگی اس پر بحث کبھی اور صحیح۔

Check Also

Final Call

By Umar Khan Jozvi