Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Roosi Inqilab

Roosi Inqilab

روسی انقلاب

پہلی جنگ عظیم کے آخری مرحلے کے دوران 1917 میں روسی انقلاب برپا ہوا۔ روس نے جنگ سے ہٹتے ہوئے اپنی سلطنت کو سوویت سوشلسٹ جمہوریہ (یو ایس ایس آر) کی یونین میں بدل دیااور یوں روایتی بادشاہت کو ختم کیا، ہوئے دنیا کی پہلی کمیونسٹ ریاست بن گیا۔ یہ انقلاب دو الگ الگ بغاوتوں کے ذریعےفروری اور اکتوبر میں مکمل ہوا۔

یہ انقلاب دو بنیادی واقعات کے گرد گھومتا ہےجسے ہم فروری اور اکتوبر انقلاب کہہ سکتے ہیں۔ پہلا سوشلسٹ انقلاب ایسےروس میں ہوا جوایک ایسا سرمایہ دارانہ معاشرہ تھا جس میں جاگیردارانہ معاشرتی اور معاشی طاقت کی مضبوط باقیات موجود تھیں۔ ایک ایساروسی مزدور طبقہ جو زمین سے وابستہ تھا، اور ایک ایسا کسان جو بنیادی طور پر انفرادی زمین کی ملکیت کا خواہشمند تھا۔ دیر ینہ اور بڑھتی ہوئی سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے تضادات نے روس میں انقلابی وباء کے لئے معاشرتی خلا کو وسعت دی۔

مغربی یورپ میں توسرمایہ داری، آئین سازی اور پارلیمانی جمہوری نظام کے ارتقا کا باعث بنی لیکن روس نےاس آزادانہ سرمایہ داری کی خواہش پر اپنی سلطنت کی دیگر تمام قومیتوں پرجبر کیا، یورپ کی تمام جمہوری تحریکوں کے خلاف مضبوطی سے کھڑا ہوگیا۔

1861میں دیہاتی غلامی ختم ہوتے ہی کسانوں کی زراعت تجارتی بن گئی اور وہاں ایک امیر کسان طبقہ ابھراجو اب بھی زمین کا بڑا حصہ رکھتا تھا لیکن زمین پر دیہی علاقوں میں تنازعے، کرایے، عام لوگوں کی اجرت اور حقوق وہی رہے جو زمینی اشرافیہ کے مابین طے تھے۔ کسانوں کے لئے اراضی کا قبضہ، خود مختاری ایسے مطالبات تھے جو کوئی دوسرا سیاسی گروہ سوائے بالشویک کے ان کی توثیق کرنے کے لئے تیار تھا۔ روسی صنعتی نظام اور نوعیت نے بھی مزدوروں میں تحریک کی گنجائش پیدا کردی جو بہت ہی عسکریت پسند اور سیاسی تھا۔

لینن بالشویک پارٹی کاسب سے اہم رہنما تھا۔ بالشویکوں نے صرف مارکسزم کو روس منتقل نہیں کیابلکہ انہیں مارکسزم کے فریم ورک کے تحت روس میں اپنے مخصوص انقلابی مسئلے کے قابل عمل حل ملے۔ انقلاب کے پہلے جمہوری مرحلے میں مزدور طبقے کی بالادستی ضروری سمجھی گئی۔

کہا جاسکتا ہے کہ روسی انقلاب تین مختلف مراحل سے گزرا اور اسے مکمل ہونے میں تقریبا بارہ سال لگے۔ پہلے مرحلے کی وجہ سے پارلیمنٹ تشکیل دی گئی جسے ڈوما کہتے ہیں۔ دوسرا مرحلہ جسے 1917 میں فروری کے انقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے مرکز میں ایک عارضی حکومت کے قیام کا باعث بنی حالانکہ زار کی حکمرانی تب بھی غالب تھی۔ انقلاب نے اپنا تیسرا اور آخری مرحلہ اکتوبر 1917 میں مکمل کیا جب زار کی حکمرانی کا تختہ پلٹ گیا اور ایک عوامی جمہوریہ قائم ہوا۔

خود مختاری کے حصول پر پہلا بڑا حملہ 1905 میں ہوا۔ اس کا آغاز 9 جنوری 1905 کو کارکنوں کے پرامن مظاہرے پر فائرنگ کرکے ہوا۔ یہ دن خونی اتوار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مزدوروں اور کسانوں نے 'ڈیموکریٹک ری پبلک ' کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے مزدوروں، کسانوں اور فوجیوں کی پہلی سوویت منتخب سیاسی تنظیمیں بھی تشکیل دیں جسے لینن نے بعد میں 'انقلابی طاقت کےسرچشمے' کا نام دیااور جس نے بالآخر انقلاب کے بعد کی ریاست کی بنیاد تشکیل دی اور سوشلسٹ ریاست نے اپنا نام یو ایس ایس آر رکھا۔

فروری 1917کے انقلاب کا آغاز پیٹرو گراڈ میں روٹی کی کمی پر خواتین کارکنوں کے مظاہرے سے ہوا۔ بعد میں یہ دوسرے شہروں اور دیہی علاقوں میں پھیل گیا۔ معاشرے کے تمام طبقات کی ہڑتالوں، کسانوں کی بغاوتوں اور فوجیوں کے انقلابی اقدام نے خود مختاری کی قسمت پر مہر ثبت کردی۔ روسی خود مختاری کا تختہ پلٹااور اس کی جگہ ایک عارضی حکومت نے آزاد خیالوں کے زیر اثر حکومت بنائی۔

انقلاب نے پہلی بار سیاسی آزادی حاصل کی۔ بنیادی اور شہری حقوق تشکیل پائے۔ فروری کے بعد انقلاب کی نئی حکومت زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکی اور کسان مایوس ہوئے کہ انہیں کوئی زمین نہیں ملی۔ سارے مزدور اور سپاہی مایوس ہوگئے۔ بالشویک آسانی سے اپنے نعروں کے ساتھ مقبول عزم کے قریب تر ابھر کر سامنے آئے۔ کسانوں کے مطالبات میں زمین کا قبضہ اور خود مختاری، جنگ کا فوری خاتمہ، صنعتوں پر مزدوروں کا کنٹرول، خود ارادیت کے لئے قوم کے علاقوں کا حق، اور سب سے بڑھ کر خوراک تھی۔

اس انقلابی کہانی کے پیچھے بنیادی عوامل جو کارفرما رہے ان میں وسیع پیمانے روسی عوام پر تکالیف، زارکی پرتشدد حکمرانی، زار نکولس دوم کی کمزور قیادت کا بدلتے حالات کے باوجود اپنے اختیارات پر اڑے رہنا، کام کاج کے ناسازگار حالات، کم اجرت اور صنعت کاری کے خطرات تھے۔ نئی انقلابی تحریکیں جن کا خیال تھا کہ کارکنوں کے زیر انتظام حکومت کو زار حکمرانی کی جگہ لینی چاہئے۔ ان سب سے بڑھ کر خونی اتوار جس دن محل کے باہر غیر مسلح مظاہرین کا قتل عام ہوا۔ پہلی جنگ عظیم کی تباہی اوربڑے پیمانے پر ہلاکتیں، معاشی بربادی، وسیع پیمانے پر بھوک۔ مارچ انقلاب جس میں فوجیوں کو ہجوم پر قابو پانے کے لئے بلایا گیا اورجن کا مزدور کارکنوں کے ساتھ شامل ہو نا تھا۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Jamia Tur Rasheed Nayi Raahon Ka Ameen

By Abid Mehmood Azaam