Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Qaum Parasti

Qaum Parasti

قوم پرستی

اٹھارویں صدی میں شروع ہونے والا نظریہ قوم پرستی ایک جدید رجحان ہے۔ یہ ایک نظریہ، عقیدہ اور تحریک ہے جو کسی خاص قوم کے مفادات کو فروغ دینے اور وطن پر قوم کی خودمختاری حاصل کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے مقاصد کیلئے ہے۔ اس میں ایک ہی ریاست کے لوگوں کی مشترکہ ثقافت، اور خودمختاری بھی ہوتی ہے۔ جب یہ نظریہ جدید ریاست کے ساتھ ضم ہو تا ہے تو، اسکو قومی ریاست کا نام دیا جاتا ہے۔

جدید قومی ریاست کے عمل نے علاقائی ریاستوں کو متعدد قومی اکائیوں میں توڑ دیا۔ اس کی سب سے بڑی مثالیں روسی اور عثمانی سلطنتیں تھیں۔ اس نظریے کی تشکیل تین مراحل سے گزری: کسی قوم کی زبان کو فروغ دے کر اس کے خیالات کو پھیلانے والے اسکالرز، لوک داستان، اور تاریخ۔ دوسرے نمبر پر صحافت جس نے قومی زبان میں مقبول اشاعتوں کے ذریعہ قومی خیالات کو پھیلایا اور تیسری سیاسی تحریکیں جنہوں نے ان نظریات کو قومی ریاست کے لئے کام کرنے کی حمایت کی۔

گذشتہ دو صدیوں کے دوران قوم پرستی واضح طور پر سب سے زیادہ غالب سیاسی قوت کے طور پر ابھری۔ جدید آدمی محض بطور آدمی نہیں سوچتا بلکہ وہ فرانسیسی، جرمن یا ایک پاکستانی کی حیثیت سے سوچتا ہے۔ جدید ریاست کی سب سے نمایاں خصوصیات میں سے ایک قوم پرستی ہے۔ قوم پرستی سب سے زیادہ جلد متحرک ہونے اور کرنے والا عمل ہے۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے جو اٹھارہویں صدی میں مغربی یورپ میں ابھر کر سامنے آیا اور پھر 19 ویں اور 20 ویں صدی کے دوران دنیا کے دوسرے حصوں تک پھیل گیا۔

قوم پرستی ایک سیاسی اصول ہے جس کے مطابق قومی اور سیاسی اکائیوں کو یکجا کیا جاتا ہے۔ ریاست اور قوم کے یکجا ہونے کیلئے تین شرائط ہیں۔ ایک قوم کا ہونا، قوم کو یہ بتانا کے قوم پرستی ضروری ہے، قوم اور ریاست دونوں لازم و ملزوم ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں۔ نسلی، شہری، توسیع پسند، انقلابی، لسانی اور مذہبی قوم پرستی اس نظریہ کی اقسام ہیں جو کسی نہ کسی خطہ زمین پر موجود رہی ہیں۔ ہر دور کے مسلمان اور یہودی دونوں مذہبی قوم پرستی پر چلتے نظر آتے ہیں۔

قوم پرستی نےپنپنے اوراپنی افزائش کیلئے دو راستے اختیار کیے۔ ایک تنازعہ، تشدد کی عدم موجودگی یا کسی بھی قومی تحریک پرلڑنے کی نشاندہی کا راستہ اور دوسرا قوم پرست راستہ ٹوٹ پھوٹ، تنازعہ اور تشدد پر مشتمل۔ مثال کے طور پر1971 میں پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے والا بنگلہ دیش بھی اسی زمرے میں آسکتا ہےجس نے تنازعہ کو پرتشدد کیا اور لسانی اور سیاسی محرومی کی بنیاد پر وفاق سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ عام طورنوزائیدہ ریاست ایک کامیاب قومی تحریک کی پیروی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اگر نئی ریاست میں نسلی گروہ کے تمام ارکان شامل نہ ہو یا ان کے حقوق پورے نہ ہوتے ہوں تو وہ ایک الگ ریاست کا مطالبہ کردیتے ہیں۔ بنگالیوں کا الگ وطن کے قیام کا مطالبہ لسانی اور نئی ریاست میں نا مکمل شمولیت اورنمائندگی کی وجہ پر مبنی تھا۔

پاکستانی قوم پرستی کے معماری عناصر میں سیاسی، ثقافتی، لسانی، تاریخی، حب الوطنی کے مذہبی اور جغرافیائی اظہار، ورثہ اور شناخت پر فخر اور محفوظ مستقبل شامل ہیں۔ دیگر ممالک کی سیکولر قوم پرستی کے برعکس پاکستانی قوم پرستی اسلامی قوم پرستی کی حیثیت سے مذہبی ہے۔ مذہب پاکستانی قوم پرست داستان کی اساس ہے۔ سیاسی نقطہ نظر سے اور پاکستان کی آزادی تک کے سالوں میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اقدامات کی مخصوص سیاسی اور نظریاتی بنیادوں کو پاکستانی قوم پرست نظریہ کہا جاسکتا ہے۔ پاکستانی قوم پرستی لسانی، ثقافتی اور مذہبی عناصر کا ایک واحد مجموعہ ہےجس میں مذہب ہر طرح سے غالب، متحد اور قوی نظرآتا ہے۔ پاکستانی قوم پرستی کے تاریخی اساس میں مذہب، زبان، مختلف ثقافت اور رہن سہن شامل تھے جس کی بنیاد پر الگ ملک کے مطالبے کی عمار ت کھڑی کی گئی۔ دو قومی نظریہ اس کی مکمل تشریح کرتا ہے۔

پاکستان صرف ایک ثقافت نہیں بلکہ یہ ایک کثیرا لسانی اور کثیر الثقافتی ریاست ہے۔ لہذا، اس کی زبانوں اور ثقافتوں کو قومی تاریخ اور ثقافتی تجربات کے وسیع تر تناظر میں ترقی کی اجازت دی جانی چاہئے۔ پاکستان کے قیام سے پہلے علاقائی ثقافتیں اور اسلام وجود میں آچکے تھے اوریہ دونوں شانہ بشانہ ترقی کر تے رہے۔ اس نقطہ نظر سے تشکیل پاکستان کے بعد صوبائی خودمختاری میں اضافہ ہوا ہے جس نے قومی اتحاد کو فروغ دیا اور پاکستانیوں کی قومی شناخت کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اس نظریہ نے 1971 کے بعد کے پاکستان میں تیزی اور قانونی حیثیت حاصل کرلی۔

آج جب ہماری قومی شناخت کو داغدارکرنے کی کوششیں ہورہی ہیں تب ہمیں پاکستان کی قوم پرستی میں نئی روح پھونکنے کی اشد ضرورت ہے۔ قیام پاکستان کی اساس کو دہرانے کا عمل ہے۔ نسلی، ثقافتی، علاقائی اور صوبائی شناخت پر تقسیم کو نظر انداز کرکے پاکستان کو متحد اور مضبوط بنانا ہوگا۔ بلوچستان کو ایک عرصے سے علاقائی، ثقافتی اور لسانی تشخص کی بنیاد پر بنگلہ دیش کی طرح علیحدہ ریاست بنانے اور پاکستان کو ایک بار پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار کرنے کی کوششیں ہوتی رہی اور مسلسل جاری ہیں۔ یہ خلا ایک مضبوط اور واضح قوم پرستی پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ پاکستان کا مستقبل بطور ایک مضبوط ریاست صرف پاکستانی قوم پرستی کی ترقی میں چھپا ہے جو دور حاضر میں ملک خداد کو یکجا کیے ہوئے ہے۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Pakistan Ke Missile Program Par Americi Khadshat

By Hameed Ullah Bhatti