Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saleem Zaman/
  4. Qasam Khuda Ki Muhabbat Nahi Aqeedat Hai

Qasam Khuda Ki Muhabbat Nahi Aqeedat Hai

قسم خدا کی محبت نہیں عقیدت ہے

میں اسکول میں چھٹی کلاس میں پڑھتا تھا تب میرے ایک کرسچن استاد آصف بشیر صاحب نے میرا نام زبردستی کلاسوں کے مابین تقریری مقابلہ میں ڈال دیا۔ اور مجھے کہا دو کاپی کے صفحات پر تقریر فلاں موضوع پر لکھ کر مجھے دکھاؤ۔ خیر جیسے تیسے کر کے میں نے دو صفحات تقریر لکھ لی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ چھٹی جماعت کا بچہ اور خود تقریر لکھنا۔ تھوڑی لمبی چھوڑی جا رہی ہے۔

لیکن واقعہ کچھ یوں ہے کہ پانچویں جماعت میں ہمارا لائبریری کا پریڈ شروع ہوا اور ہمارے استاد محترم کا حکم تھا کہ ہر بچے نے ایک کتاب لینا ہوگی۔ تو اس طرح ہم قریب ترین دوست ایک ایک بچوں کے ناول، کہانیاں اور بڑوں کے ناول بھی آنے والے اگلے پریڈ تک آپس میں تبدیل کر کے وہ چھ یا سات ناول، کتابیں پڑھ لیتے۔ جس سے ہماری ذخیرہ الفاظ بڑھتے گئے۔ اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلا۔ شائد پانچویں اور چھٹی کلاس تک ہم نے لائبریری میں موجود وہ تمام کتابیں پڑھ ڈالیں جو پڑھنے کی ہمیں اجازت تھی۔

اس کے بعد ہم لائبریری میں شرارتیں کرتے تاوقتیکہ ہم جماعت نہم میں پہنچ گئے۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ میں ایک ناول یا کتاب اسکول سے آکر دوپہر کو سونے کی بجائے والد کی ڈانٹ کے ڈر سے بستر میں لیٹ کر پڑھتا اور زیادہ سے زیادہ دو دوپہروں میں ایک کتاب ختم ہو جاتی۔ اور پھر ہم دوست آپس میں کتابیں تبدیل کر لیتے۔ اور یہ کتب بینی کا شوق میری نانی جان نے مجھ میں پیدا کیا۔ وہ جب ہمارے گھر آتیں تو اس وقت چار آنے (25 پیسے) میں ایک بچوں کی کہانی ملتی تھی جو وہ دو میرے لئے لے آتیں۔ پھر کہتی "سلیم پتر، یہ کہانی تو مجھے سنا" پھر ہم نانی، نواسہ وہ کہانی پڑھتے۔ یوں میرے پاس تقریباََ 100 سے زیادہ وہ کہانیاں موجود تھیں۔

تو بات ہو رہی تھی کہ میں نے وہ دو صفحات کی تقریر کیسے لکھ لی۔ خیر اس مقابلے میں تو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی لیکن ماسٹر آصف بشیر صاحب ہم چار دوستوں کے ہردل عزیز استاد بن گئے۔ آٹھویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے ماسٹر آصف بشیر صاحب کی محنت سے ہم اس قابل ہو گئے تھے کہ بلوچستان کے تمام انٹر اسکول مقابلوں میں ہم 5 دوستوں کی کوئی نہ کوئی پوزیشن ہوتی۔ اور ماسٹر صاحب کی طرف سے ہمیں یہ اجازت نہ تھی کہ ہمارے اسکول کے تقریری مقابلوں میں تقریر لکھ کر لائیں گے۔

ہمیں حکم ہوتا کہ مد مقابل کے پوائنٹ نوٹ کرو اور ان کا جواب بنا کر تقریر میں پیش کرو۔ یہی وجہ تھی کہ جب ہم انٹر اسکول مقابلوں میں بھی جاتے تو وہاں بھی اپنی لکھی تقاریر میں مدمقابل کے دلائل کے مطابق رد و بدل کرتے اور حاضرین سے خوب داد پاتے۔ آٹھویں جماعت کا اسکول میں کوئی تقریری مقابلہ تھا عنوان مجھے یاد نہیں۔ اور مجھے تقریر شروع کرنے کے لئے نہ کوئی شعر مل رہا تھا اور نہ ہی ایسے کوئی الفاظ جو میری تقریر کو اٹھان دے سکیں۔

میں ماسٹر آصف بشیر کے پاس گیا۔ ان کا اردو کا ذخیرہ الفاظ کمال تھا لیکن لہجہ ٹھیٹ پنجابی۔ وہ اتنے پڑھے لکھے ہونے کے باوجود "غلط" کو "گلط" ہی کہا کرتے تھے۔ اور ایسے بہت الفاظ تھے جن کا بیان آج میں ان کی شان میں گستاخی تصور کروں گا۔ اور گالی بھی بہت دل سے دیتے اور چونکہ والی بال اور باسکٹ بال کے اچھے پلیئر تھے تو ہاتھ بھی کافی بڑا اور سخت تھا۔ اور ایک ہاتھ سے منہ کو تھامتے اور دوسرے سے اس پر چپیڑ رسید فرماتے۔ منہ بچانے کا کوئی امکان نہ ہوتا۔ تو ان سے ڈر بھی بہت لگتا تھا۔ کہ ناجانے کب قلم و شعر چھوڑ کر کبڈی شروع کر دیں۔

خیر تو مجھے پریشان دیکھ کر کہنے لگے۔ شعر لکھو۔

قسم خدا کی محبت نہیں عقیدت ہے

دیار دل میں بڑا احترام ہے تیرا۔

میں نے لکھا جلدی جلدی دہرایا اور جب تقریر شروع کی تو قسم خدا کی بجائے "خدا کی قسم" کہا اور جب میری نظر ماسٹر آصف بشیر صاحب پر پڑی تو ان کا سانولا رنگ کوئلہ جیسا ہو رہا تھا اور ماتھے پر ہاتھ مار رہے تھے۔ خیر جج صاحبان نے بھی شعر سے انصاف نہ کرنے پر تیسری پوزیشن دی۔ ماسٹر صاحب نے مجھے کچھ نہ کہا۔ دوسرے دن میں نے کلاس میں ان کا موڈ اچھا دیکھ کر پوچھا۔ سر اس شعر کی تشریح تو کر دیں۔

قسم خدا کی محبت نہیں عقیدت ہے

دیار دل میں بڑا احترام ہے تیرا۔

پتہ نہیں انہیں کیا ہوا۔ کچھ دیر خاموش ہو گئے۔ پھر بات شروع کی تو آواز گلے میں پھنسنے لگی اور آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ہم سب اپنے محبوب استاد کی ایسی حالت پر کچھ دلگرفتہ اور کچھ پریشان ہوئے۔ ایک طالب علم نے کلاس کے کونے میں رکھے کولر سے انہیں پانی دیا۔ ایک گھونٹ پینے کے بعد بولے۔ یار سلیم، اے کی کیتا ای۔ (یار سلیم یہ کیا کر دیا) پھر کلاس سے مخاطب ہوئے اور بولے۔ دنیا دیوانی ہے کہ ان سے محبت کی جائے۔ جبکہ ہر مذہب نے محبت کا اصول احترام رکھا ہے۔ احترام۔ بچو! جب حد سے بڑھتا ہے تو عقیدت بنتا ہے اور یہ عقیدت دراصل ناسمجھ لوگوں میں"عشق" کہلاتا ہے۔

ہمارے تو سر سے بات گزر گئی۔ استاد محترم۔ مسکرائے اور بولے۔ کاکا۔ وقت تجھے سکھائے گا۔ بلکہ تم سب کو سکھائے گا کہ محبت دراصل احترام کا نام ہے۔ چاہے یہ دوست سے ہو، بیوی سے ماں سے ہو بیٹی سے ہو۔ اگر آحترام نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ پھر بولے جب تم بڑے ہو گے نہ اور کوئی بہت پیار کرنے والے تمہیں چھوڑ جائے گا تو سمجھ جانا اس میں احترام نہیں تھا۔ اور کوئی ایسا تم سے دور ہو جائے جس میں احترام ہو تو اس کی عقیدت کی خوشبو تمہیں اور تمہاری یادوں کو مہکائے گی۔ بس بچو! لوگوں سے محبت کا وعدہ کبھی نہیں کرنا۔ ان کا احترام کرنا۔

اب جب ہم بھی عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں سچ بولنے کو دل کرتا ہے۔ تو احساس ہوا پیار، عشق محبت، صرف اور صرف ایک احترام کی تفاسیر ہیں۔ اور عقیدت شائد محبوب کی اتباع کا نام ہے۔ شائد اسی وجہ سے میں آج تک کسی سے بھی، کسی سے بھی اقرار محبت، یا عشق نہیں کر پایا۔ میں نے احترام اور عقیدت میں اپنی عمر کھپائی۔ جبکہ لوگ چاہے پیر و مرشد تھے، عورت تھی، بہن بھائی تھے یا ساتھی۔ لفظی اظہار محبت کے متمنی رہے۔ اور ہر بار مجھے خفت کا سامنا کرنا پڑا۔

Check Also

Balcony

By Khansa Saeed