Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saleem Zaman
  4. Itaat Aur Itteba

Itaat Aur Itteba

اطاعت اور اتباع

بابا جی۔۔ اطاعت اور اتباع میں کیا فرق ہے۔۔ بابے نے ایک لمبا سانس لیا اور غور سے میری طرف دیکھنے لگا۔۔ کچھ دیر سوچتا پھر بولا۔۔

قرآن مجید میں ارشاد پاک ہے کہ: اے ایمان والو! اللہ کا حکم مانو اور اس کے رسول کا حکم مانو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو۔ (سورہ محمد)

یعنی جو حکم قرآن نے دیا وہ حکم اللہ کا ہے اس کو بجا لانا ایمان ہے مثلا جب کسی سے معاملہ طے کیا جائے تو اس کی دستاویز لکھی جائے اور اس پر گواہ اس طرح ہوں۔

ترجمہ: "اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ کر لیا کرو پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ان لوگوں میں سے جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کرتے ہو" البقرہ

تو اب یہ قانون ہے کی کاروباری دستاویز کے گواہ ایسا ہی ترتیب ہوگی۔۔ دومرد۔ یا دو خواتین اور ایک مرد۔۔ لیکن کچھ جگہوں پر نبی کریمﷺ نے خصوصی اختیارات کا استعمال فرمایا۔ مثلا حضرت خزیمہ نے جب نبی کریمﷺ گھوڑے کی خرید فرما رہے تھے اور یہودی مکر گیا تھا۔ اور اس وقت اس خرید و فروخت کا کوئی گواہ نہ تھا تو یہودی نے شریعت محمدی کے تحت گواہ مانگا۔۔ تو حضرت خزیمہ کہیں سے تشریف لا رہے تھے۔۔ انہیں علم ہوا کہ یہودی گواہ طلب کر رہا ہے اور نبی کریمﷺکے گواہ کوئی بھی موجود نہیں۔۔ تو آپ واقعہ کو جانے بغیر نبی کریمﷺکے حق میں گواہی دیتے ہیں۔۔

جس پر نبی کریمﷺ خوش ہو کر مجمع میں اعلان فرماتے ہیں۔۔ کہ آج کے بعد حضرت خزیمہ کی گواہی دو گواہیاں تصور ہوں گی۔۔ جو کہ قران میں موجود نہیں۔ اب صحابہ کرام نے"اطیعو الرسول" یعنی رسول کریمﷺکی اطاعت اس طرح سے کی کہ حضرت عمر اور ان کے بعد تک کے زمانے میں حضرت خزیمہ کی ایک گواہی دو افراد کے برابر مانی جاتی تھی۔۔ اور آپ کا لقب " ذوالشہادتین" یعنی دو گواہیوں والا پڑ گیا۔

اسی طرح اللہ کریم نے نامزد کو بالواسطہ یا بلاواسطہ 700 مرتبہ قرآن میں تاکید کی ہے۔۔ رکوع کا ذکر ہے سجود کا، قیام کا حمد و تسبیح کا ذکر ہے۔ مگر طریقہ نہیں بتایا گیا۔۔ اس طریقے کو اللہ نے پسند فرمایا جس طریقہ سے نبی کریمﷺکی نماز کی ادائیگی تھی۔۔ اور تا قیامت ہم اس طریقے پر عمل کر رہے ہیں جو نبی نے سکھایا۔۔

اب سنو! اطاعت کا مطلب حکم ماننا۔۔ چاہے مزاج مانے یا نہ مانے، اگر آپ اسلام کے ماننے والے ہیں تو آپ کو قرآنی احکامات اور نبی کریم کے طریقہ کو ماننا ہوگا۔ ورنہ آپ کی کوئی عبادت قبول نہ ہوگی۔۔ اسی لئے اللہ کریم نے ان نمازیوں کو بہت سختی سے ڈانٹا ہے جو نماز بھلا چکے ہیں۔۔

ترجمہ: بے شک منافق (بزعمِ خویش) اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ انہیں (اپنے ہی) دھوکے کی سزا دینے والا ہے، اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی کے ساتھ (محض) لوگوں کو دکھانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ کویاد (بھی) نہیں کرتے مگر تھوڑا"(النساء)

لیکن اتباع کے معنی ہیں کہ جو افعال انہوں نے جس طرح سے انجام دئے ان کی اسی طرح سے پیروی کی جائے- یعنی جو کچھ انہوں نے کیا اور جس طرح سے کیا اس طرح سے ہم بھی کریں۔

اب اتباع کا حکم اللہ نے اپنے لئے نہیں فرمایا بلکہ اسے صرف نبی کریمﷺکے لئے مخصوص فرما دیا اور قران میں ارشاد فرمایا "اے نبی کہ دیجئے اگر تم اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہو تو میر ی تابعداری(پیروی) کرو، خود اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا مہربان ہے(سورۂ آل عمران:31)۔

اتباع کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ جیسا نبی کریمﷺ نے کام کیا، کوئی اشارہ کیا، کوئی بات کرتے ہوئے کوئی تاثر پیش کیا۔۔ ان سے پیار اتنا ہو جائے کہ وہ تاثر تک بھی آپ copy کر لیں۔۔ اسی لئے صحابہ کرام نے جو بھی نبی کی سنت یا احادیث بیان کیں اس کا تاثر تک بھی وہی رکھا گیا۔۔

حضرت انس بن مالکؓ کو کسی نے دیکھا، کہ آپ کھانا کھاتے وقت سالن میں سے گوشت کی بوٹیاں ایک طرف کرتے جا رہے ہیں اور صرف کدو شریف اُٹھا اُٹھا کر تناول فرما رہے ہیں، کسی نے پوچھا: آپ ایسا کیوں فرما رہے ہیں؟ فرمایا: میں نے محبوب دوجہاں ﷺ کو ایسا ہی کرتے دیکھاہے۔ (مشکوۃ المصابیح)

صحابہ کرام حدیث مبارکہ بیان کرتے وقت وہی انداز و کیفیت کو بھی اپناتے جو حدیث بیان کرتے وقت آپ ﷺ نے اپنائی ہوتی اور ادب کو خاص طورپر ملحوظِ خاطر رکھتے، حضرت براءبن عازبؓ سے کسی نے پوچھا: کن جانوروں کی قربانی جائز نہیں؟ آپ لوگوں کے درمیان کھڑے ہوگئے اور فرمایا: حضور ﷺ یہ مسئلہ بتاتے ہوئے ہمارے درمیان کھڑے ہو گئے، پھر آپؓ نے ہاتھ بلند کیا اور چار انگلیوں سے اشارہ کر کے بتایا کہ ان کی قربانی جائز نہیں، کہا: حضور ﷺ نے بھی ایسے ہی ہاتھ بلند کر کے چار انگلیوں سے بتایا تھا، پھر خیال آیا کہ کہیں میری اِن انگلیوں کو کوئی آپ ﷺ کی انگلیوں جیسا نہ سمجھ لے، فوراً فرمایا: میری انگلیاں ایسی نہیں ہیں، میری انگلیاں سرکار دو جہاں ﷺ سے بہت چھوٹی ہیں۔ (سنن ابی داود)

اسی طرح صحابہ کرام سُنت پر عمل کرنے کی خاطراپنا نقصان برداشت کر لیتے لیکن سنتِ مبارکہ کو نہ چھوڑتے، حضرت عمر فاروقؓ نے ایک مرتبہ نئی قمیض زیب تن فرمائی تو دیکھا اس کی آستین لمبی ہے، آپ نے اپنے بیٹے سے چُھری منگوائی اور فرمایا یہ لمبی آستینوں کو پکڑ کر کھینچو اور جہاں تک میری انگلیاں ہیں ان سے آگے سے کپڑا کاٹ دو، حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں: میں نے اِسے کاٹا تو وہ بالکل سیدھا نہیں تھا بلکہ اوپر نیچے سے کٹا، میں نے عرض کیا: "ابّاجان!اگر اسے قینچی سے کاٹا جاتا تو بہتر رہتا، آپ نے فرمایا: بیٹا! اسے ایسا ہی رہنے دو کیوں کہ میں نے محبوب دوجہاں ﷺ کو ایسے ہی کاٹتے دیکھا تھا۔

بابا بولا یاد رکھ بیٹا! اطاعت کا صلہ جنت ہے۔۔ جبکہ اتباع کا صلہ اللہ نے دونعمتوں سے فرمایا ایک تو اتباع کرنے والے کے تمام گناہ معاف فرمائے گا یہ تو جنت کا حصول۔ ہوا۔۔ اور اس سے بڑھ کر اللہ اپنا محبوب اسے بنالے گا جس کو اپنے محبوب کی محبت میں ان کی ادائیں اپنائے ہوئے دیکھے گا۔۔ تو پھر جسے اللہ اپنا محبوب بنالے۔۔ مخلوق پر اسے محبوب بنانا فرض ہوجاتا ہے۔۔ میں تجھے ایک بار پھر یہ آیت سناتا ہوں

"اے نبی کہ دیجئے اگر تم اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہو تو میر ی تابعداری(پیروی) کرو، خود اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا مہربان ہے" (سورۂ آل عمران:31)۔

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں

اصل الاصول بندگی اس تاجْوَر کی ہے

Check Also

Vella Graduate

By Zubair Hafeez