Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Shad
  4. Muhammad Shah Rangila Saltanat e Mughlia Ka Mashoor Shahenshah (2)

Muhammad Shah Rangila Saltanat e Mughlia Ka Mashoor Shahenshah (2)

محمد شاہ رنگیلا سلطنتِ مغلیہ کا مشہور شہنشاہ (2)

جو اس کو معزول کر کے شہزادہ محمد ابراہیم کو نیا مغل بادشاہ مقرر کرنا چاہتا تھا۔ اگر وہ چوبیس گھنٹے نشے میں رہتا تھا اور دربار میں ہر وقت مجرے ہوتے رہتے تھے تو مرہٹوں اور سکھّوں کے خلاف مسلسل لڑی جانے والی جنگوں کی کمان کون کرتا تھا؟ میدان جنگ میں مہینوں پڑاؤ کون ڈالے رکھتا تھا؟ احکامات کہاں سے جاری ہوتے تھے اور سلطنت کے معاملات کون دیکھتا تھا؟

سفیر کس سے ملتے تھے اور مسلم ممالک کے ساتھ خط و کتابت کون کرتا تھا؟ تاریخ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ سارے کام بھی اسی نے کئے۔ اس پہ یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ ایک نفسیاتی مریض تھا اور بار بار اپنے وزیر بدلتا رہتا تھا۔ جبکہ اس نے پورے انتیس سال حکمرانی میں چھ وزیراعظم تبدیل کئے۔ اس کا پہلا وزیراعظم سید حسین علی برحا، دوسرا آصف جاہ (جس نے خود محمد شاہ سے ناراض ہو کر استعفٰی دیا تھا جو بعد میں نادر شاہ کے حملے کا سہولت کار بنا۔

لیکن الزامات کے برعکس اسے محمد شاہ رنگیلا نے معزول نہیں کیا تھا)، تیسرا قمر الدین خان تھا۔ باقی تین وزیر کوکی جی، روشن الدولۃ، صوفی عبدالغفار آف ٹھٹھہ کو اس نے خود معزول کیا تھا کیوں کہ وہ نا اہل قرار پائے تھے۔ چھ وزیر تبدیل کرنے کی وجہ اس کی کوئی نفسیاتی بیماری نہیں بلکہ مختلف درباری مسائل اور جھگڑے تھے۔ 29 سالوں میں چھے وزراء یعنی ہر پانچ سال بعد ایک وزیراعظم تبدیل کرنا کوئی بڑی بات تو نہیں۔

اس پہ ایک اور الزام یہ عائد کیا جاتا ہے کہ جب نادر شاہ ایرانی ہندوستان پہ حملہ آور ہوا تو وہ سکون سے دہلی میں بیٹھ کر ہنوز دلی دور است یعنی ابھی دلی دور ہے ابھی سے فکر کی کیا بات ہے؟ کہتا رہا جبکہ سچ یہ ہے کہ محمد شاہ اور نادر شاہ کے درمیان جنگ 1739ء میں کرنال کے مقام پر ہوئی جو دلی کے شمال میں تقریباً 110 کلو میٹر پر واقع ہے۔ محمد شاہ کی 100، 000 سے زائد فوج نادر شاہ کی 55000 فوج کا مقابلہ نہ کر سکی۔

ایک بات جو اہم تھی وہ یہ کہ نادر شاہ کی فوج جدید توپوں، بندوقوں اور زمبورک (ایک طرح کی کم وزن توپ جسے اونٹوں پر لگا کر داغا جا سکتا ہے) سے لیس تھی جو کم وزن اور آسانی سے منتقل و نسب کی جا سکتی تھیں۔ جبکہ محمد شاہ کی فوج کے ہتھیار بھاری بھر کم اور پرانی طرز کے تھے جن کی کثرت نادر شاہ کی چست اور منظم فوجی اقدام کے مقابل نہایت ناکارہ ثابت ہوئی۔

بھاری بھر کم ہتھیار اور غیر منظم فوج اگر کثیر ہو تو وہ چست اور متحرک فوج کا آسانی سے نشانہ بن جاتی ہے۔ جنگ کرنال میں بھی یہی ہوا اور محمد شاہ رنگیلا کو اس کی نا تجربہ کاری اور کمزور جنگی حکمت عملی کے سبب شکت فاش ہوئی۔ لہٰذا یہ کہنا کہ محمد شاہ رنگیلا محل میں بیٹھ کر ہنوز دلی دور است کہ کر عیش و عشرت میں رہا مکمل سچ نہیں لگتا۔

کوہ نور ہیرے پر نادر شاہ کا قبضہ بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ نادر شاہ دہلی پر قبضہ کے بعد 56 دن وہاں ٹھہرا اس دوران محمد شاہ رنگیلا کی منظور نظر طوائف نور بائی نے نادر شاہ کے ساتھ تعلقات استوار کر لئے اسی دوران اس نے نادر شاہ کو راز بتایا کہ تم نے اب تک جو دہلی سے لوٹا ہے وہ اس چیز کے مقابلے میں کچھ نہیں جو بادشاہ اپنی پگڑی میں چھپائے رکھتا ہے۔

ایران واپس جاتے ہوئے آخری دن دربار میں نادر شاہ نے محمد شاہ رنگیلا سے کہا، "ایران میں رسم چلی آتی ہے کہ بھائی خوشی کے موقعے پر آپس میں پگڑیاں بدل دیتے ہیں، آج سے ہم بھائی بھائی بن گئے ہیں، تو کیوں نہ اسی رسم کا اعادہ کیا جائے؟" محمد شاہ کے پاس سر جھکانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ نادر شاہ نے اپنی پگڑی اتار کر اس کے سر رکھی، اور اس کی پگڑی اپنے سر، اور یوں دنیا کا مشہور ترین ہیرا کوہِ نور ہندوستان سے نکل کر ایران پہنچ گیا۔

یہ کہنا غلط نہیں کہ نامساعد حالات، بیرونی حملوں اور طاقتور امراء کی ریشہ دوانیوں کے دوران مغل سلطنت کا شیرازہ سنبھالے رکھنا ہی محمد شاہ رنگیلا کی سیاسی کامیابی کا ثبوت ہے۔ ان سے پہلے صرف دو مغل حکمرانوں اکبر اور اورنگزیب ہی نے محمد شاہ سے زیادہ عرصہ حکومت کی۔ پھر محمد شاہ کو آخری با اختیار مغلیہ شہنشاہ بھی کہا جا سکتا ہے، ورنہ اس کے بعد آنے والے بادشاہوں کی حیثیت امرائے دربار، روہیلوں، مرہٹوں اور بالآخر انگریزوں کے کٹھ پتلی سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔

کہا جاتا ہے کہ وہ ادب، ثقافت کو فروغ دینے والا اور وسیع المطالعہ مغل حکمران تھا۔ اس کی ذاتی لائبریری میں چوبیس ہزار کتابیں تھیں۔ شورش زدہ حالات کے باوجود درس و تدریس اور فن و ثقافت کو فروغ اس کا کارنامہ ہے اس کے دربار میں ندھا محل اور چترمین جیسے مشہور ماہر فنون لطیفہ موجود تھے جن کی تصاویر مغلیہ مصوری کے سنہرے دور کے فن پاروں کے مقابلے پر رکھی جا سکتی ہیں۔

اس نے اپنے دور میں مذہبی مکتب قائم کئے اور اسی کے دور میں قرآن مجید کا پہلی بار فارسی اور اردو ترجمہ ہوا۔ ادبی حوالے سے محمد شاہ کا ایک اہم کارنامہ اردو کو درباری زبان قرار دینا ہے۔ اس بات میں بھی مبالغہ ہے کہ محمد شاہ رنگیلا کی وفات کثرت شراب نوشی اور افیم کی لت سے ہوئی کیونکہ دوسری طرف اس کی وفات کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ 1748ء میں مانی پور کی جنگ میں مغل فوج کو فتح حاصل ہوئی لیکن اس جنگ میں محمد شاہ رنگیلا کا ایک قابل وزیر قمر الدین مارا گیا۔

جس کا افسوس محمد شاہ رنگیلا کو اتنا ہوا کہ وہ تین دن تک شاہی محل سے باہر نہیں آیا، کھانا ترک کر دیا جس سے وہ بیمار پڑ گیا اور بار بار کہتا تھا کہ قمر الدین جیسا وفادار اور قابل وزیر میں کہاں سے لاؤں؟ اس حالت میں تین دن بعد اس کی وفات ہو گئی۔ اب یہ اس کی خوش قسمتی کہیے کہ اس کا جنازہ اس وقت مکہ مکرمہ سے آئے ہوئے امام نے پڑھایا۔ انھیں حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار میں امیر خسرو کے پہلو بہ پہلو دفن کیا گیا۔ یہ جگہ محمد شاہ رنگیلا نے اپنی زندگی ہی میں دربار کے متعلقین سے درخواست کر کے مخصوص کروا لی تھی۔

Check Also

Final Call

By Hussnain Nisar