Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Shad
  4. Milad Kaise Manain

Milad Kaise Manain

میلاد کیسے منائیں

یہ اس وقت کی بات ہے، جب جوانی تھی پڑھنے کا جنون تھا اور معلومات کو بھی ہم علم سمجھ بیٹھتے تھے۔ والد محترم دھوپ میں بیٹھے اپنےمحبوب مشغلہ سے محظوظ ہو رہے تھے، انکے سامنے ٹوکری میں موسم سرما کے پھل رکھے تھے اور وہ انکو چھری سے کاٹتے صاف کرتے خود بھی کھاتے اور ہمارے بہن بھائیوں کو بھی دیتے جاتے۔ جو ارد گرد بیٹھے اپنے پڑھنے لکھنے کے کام کر رہے تھے۔

ربیع الاول کا مہینہ تھا، مسجد کے اسپیکر سے ختم شریف کیلئے چندہ نشریات جاری تھیں، چندہ دینے والے کا نام کنبہ کے جملہ افراد کے ناموں کیساتھ ڈھیروں دعاوں کا ایک سلسلہ جاری تھا، بچے باری باری نعت پڑھ رہے تھے اسپیکر میں بولنے کا شوق پورا ہو رہا تھا۔ لیکن جونہی کوئی چندہ لاتا نعت روک کر دعائیہ اعلان کیا جاتا۔ میں نے امرود صاف کر کے کھانے کا ارادہ بناتے ہوئے سوال کیا، ابو جی، یہ عید میلاد النبی ﷺ کیوں منا رہے ہیں۔

کیا انہیں نہیں پتہ کہ 12 ربیع الاول متفقہ تاریخ وفات ہے اور تاریخ ولادت میں اختلاف ہے؟ ابو جی مسکرائے اور اپنا کام جاری رکھتے ہوئے بولے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے، ویسے بھی عید میلاد النبی منانے والے دو گروہ غالب ہیں۔ میں نے پوچھا وہ کونسے؟ فرمانے لگے اوّل متشدد محبان اور دوسرے تختیوں پر حاجی لکھوانے کے شوقین۔ والدمحترم ہمارے شوق مطالعہ کو ہوا دینے کیلئے اصطلاحات وغیرہ بولتے تھے۔

جنکے معنی مطالب اور تفصیلات جاننے کا تجسس ہمیں نئے اہداف دیتا تھا۔ سوال پھر موجود تھا فورا کہا میں سمجھا نہیں، ابو جی نے ریڈ بلڈ مسمی آدھی مجھے دی اور باقی خود کھاتے ہوئے بولے، یار یہ محبت میں اسقدر غلو کرنے والے لوگ ہیں، جو بارہ ربیع الاول کو صبح صادق روایات میں درج وقت کا انتظار روزہ کھولنے کی طرح خاموش رہ کر بے صبری سے کرتے ہیں اور پھر ایک نعرہ لگا کر درود کا ورد شروع کر دیتے ہیں۔

میں نے کہا اور وہ دوسرے؟ ابو جی ہنسے اور بولے اس میں ہم جیسے زیادہ لوگ آتے ہیں، جو اس لئے عید میلادالنبی ﷺ مناتے ہیں کہ سب کو پتہ چل جائے، ہمیں بھی عقیدت ہے، محبت ہے اور کسی سے کم نہیں ہے، ایک دوسرے کے گھروں میں کھانے حلوے کھیریں بھیجتے ہیں کہ ہماری حیثیت بھی مسلمہ رہے اور ہماری سخاوت کے چرچے بھی ہوں۔

اب اپنی باری تھی، میں نے کہا، اسی لئے ایسے کام جو دین میں نہیں ہیں زبردستی داخل کئے گئے ہیں۔ وہ بدعت ہیں اور ان سے نہ صرف بچنا چاہیئے، بلکہ دوسروں کو بھی روکنا چاہیئے ایسے کاموں پر پابندی لگنے چاہیئے۔ ساتھ ہی میں نے تائید حاصل کرنے کی خاطر پوچھا ہمیں عید میلاد النبی منانے والوں کو کیسے روکنا چاہیئے؟ والد محترم مسکرائے اور بولے۔

عقیدت سے ہوتی خرابیوں کو روکتے نہیں انہیں درست کرتے ہیں، عقیدت کے معاملات بڑے جذباتی ہوتے ہیں، انکے سامنے درست طریقے سے اپنی عقیدت کا اظہار کر کے انکی اصلاح کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ میں نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا تو کیا اب ہم بھی میلاد منائیں؟ والد محترم بولے ہاں ہمیں ہر روز میلاد منانا چاہیئے تا کہ اس ایک دن کی بدعت سے دور رہ سکیں۔

اب سوال پھر تیار تھا، کیا مطلب روز بدعت نہیں ایک دن بدعت ہے؟ والد محترم بولے ہمارا یہ ایمان ہے کہ اللہ کے آخری نبی رحمت اللعلمین ﷺ ہیں۔ انکی امت میں پیدا ہونا ہمارا بہت بڑا اعزاز ہے اور پھر آپ نے ہمارے ذمہ دین کی تبلیغ بھی لگائی ہے تو اپنی عقیدت کا اظہار اس فریضہ کو ادا کر کے کرو۔ کیا مطلب، تبلیغی چلے لگائے جائیں؟

جواب ملا، ہاں روز چلاکشی کی جائے روز تبلیغ کی جائے، لیکن اس طرح جیسے آپ ﷺ نے تبلیغ کی، اپنی زندگی کا نمونہ پیش کر کے تبلیغ کرنا ہے تو ہمیں زندگی کو سچ والا بنانا ہوگا جھوٹ سے پاک۔ ہمیں اپنے ظرف اور برداشت کو اعلی بنانا ہوگا کہ کوئی کوڑا بھی پھینکے تو اسکی عیادت کو جائیں۔ ہمیں پیغام حق کیلئے سختیاں برداشت کرنا ہونگی خواہ کہیں پتھر ہی کھانا پڑیں۔

جب ہمیں طاقت ملے ہمیں قدرت ہو تو خود پر ظلم کرنے والوں کو معاف کرنا ہوگا، خواہ وہ ہندہ اور وحشی جیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ ہمیں اپنے مدد کرنے والوں ساتھ دینے والوں کا شکرگذار ہونا پڑے گا، خواہ مدد پانی کا گلاس ہی ہو پلانے والا ننھا بچہ ہی ہو۔ ہمیں اپنے پڑوسی کی ذمہ داری اٹھانا ہو گی اسکی خدمت ایسے کرنا ہوگی کہ وہ راضی رہے اور قیامت میں اپنے راضی ہونے کی گواہی دے۔

ہمیں اپنے وعدے پورا کرنا ہونگے خواہ اسکے لئے ہمیں مالی جانی نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ ہمیں اپنا کاروبار صاف ستھرا اور پورے ناپ تول والا کرنا ہوگا، خواہ ہمارا منافع آٹے میں نمک سے بھی کم ہو جائے۔ ہمیں اپنے عزیز و اقربا پر شفقت اور رحم کرنا ہوگا، خواہ وہ زیادتی کریں بات حد سے بڑھ جائے تو پھر بھی جوابی کاروائی کی بجائے خاموشی اختیار کرنا ہوگی۔

ہمیں اپنا ہر دن زندگی کا آخری دن سمجھ کر گذارنا ہوگا کہ ابھی سیدھا خالق کے سامنے پیش ہونے کو جا رہا ہوں۔ یہ زندگی یہ نمونہ لے کر ہم معاشرہ میں پھریں گے تو لوگ ہمیں پسند کریں گے، ہمارے جیسا ہونا چاہیں گے اور جب ہم بتائیں گے کہ ہم تو اپنے نبی ﷺ کی زندگی کو اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں تو پھر دنیا بھی انکو پہچان سکے گی ان سے متعارف ہو گی انکا احترام کرے گی۔

یہی نبی ﷺ سے محبت کا درست طریقہ ہے اور اسی طرح روز میلاد منایا جاسکتا ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں ایسا امتی بنا دے، جو روز قیامت اپنے نبی آخرالزماں ﷺ کے سامنے شرمسار نہ کھڑا ہو۔

Check Also

Haram e Pak Se Aik Ajzana Tehreer

By Asif Masood