1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sajid Ali Shmmas/
  4. Waqar e Anjuman Hum Se Hai, Farogh e Anjuman Hum Se Hai

Waqar e Anjuman Hum Se Hai, Farogh e Anjuman Hum Se Hai

وقار انجمن ہم سے ہے فروغ انجمن ہم ہیں

قومیں ہمیشہ افراد سے بنتی ہیں۔ مختلف افراد جب ایک نظریے کے تحت جمع ہوتے ہیں تو قوم وجود میں آتی ہے۔ ترقی اور سربلندی کی خواہش ہر قوم کے اندر موجود ہوتی ہے مگر جس طرح ستاروں کی روشنی سے آسمان جگمگا اٹھتا ہے، اسی طرح قوم کی ترقی بھی افراد کی ترقی سے عبارت ہوتی ہے۔ ایک فرد بذات خود کچھ نہیں ہوتا مگر جب جب ہر فرد ترقی کے حصول کیلئے تمام قوتیں صرف کردیتا ہے تو پھر افراد کی اجتماعی ترقی و خوشحالی ملکی اور قومی ترقی کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔ آسمان پر جگمگاتے ہوئے ستارے ہوں یا زمین پر ترقی کی بلندیوں کو چھونے والے افراد یہ سب ملکر ہی اپنے ماحول، اپنے معاشرے اور اپنی قوم کو حقیقی سر بلندی سے ہمکنار کرتے ہیں۔ مجھے یہاں پر ایک شعر یاد آرہا ہے جس کو میں ضرور لکھنا پسند کروں گا کہ۔۔

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں

شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے ہر فرد کو ملت کے مقدر کا ستارا بنا کر اتحاد باہم اور اتفاق کا سبق دیا ہے۔ انہوں نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ اگر قوم کی ترقی عزیز ہے تو انفرادی مفادات کو قربان کرنا ہو گا۔ قربانی و ایثار کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ اپنی ترقی کو ملک و ملت کی سرفرازی سے منسلک کرنا ہو گا۔ قوم ذلت و خواری کا شکار ہو اور فقط ایک فرد ترقی کر جائے تو یہ ایک آدمی کی ترقی ہو گی۔ لیکن جب تمام افراد اپنی ترقی کو قومی مفادات کے تابع کر لیں گے تو پھر ایک عظیم قوم وجود میں آئے گی۔ ایسی قوم جو کہکشاں کے ستاروں کی طرح روشنی بکھیرتی اور عظمت انسانیت کی خوشبو لٹاتی ہے۔

تاریخ انسانیت ہو یا تاریخ اسلام، تہذیب و تمدن کے ارتقاء کا مسئلہ ہو یا پھر معاشرتی بہبود کا قصہ، قوموں نے ہمیشہ افراد کی ترقی کے سہارے ہی عظمت حاصل کی ہے۔ قوم کا وجود افراد کا محتاج ہوتا ہے اور منتشر افراد کا اجتماع ہی اسے وجود بخشتا ہے۔ جب افراد کی ترقی اتحاد باہمی کے نام پر ملک و قوم کا سرمایہ بنتی ہے تو پھر زمانے بھر کیلئے قابل رشک قوم سامنے آتی ہے۔ اسلام کا پیغام اتحاد عام ہے۔ ترجمہ (اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو)۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمانوں نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھا، ہر فرد نے قوم کی ترقی کیلئے اپنی صلاحیتیں وقف کر دیں اور اپنے مفادات کو قومی مفادات کیلئے وقف رکھا، اس وقت تک قوم ترقی و خوشحالی کی شاہراہوں پر سفر کرتی رہی لیکن جب اسی قوم کے افراد ٹکڑوں میں بٹ گئے اور قومی ترقی کے مقاصد کو بھلا دیا تو یہی قوم ذلیل و رسوا ہو گئی۔

قومی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ ہر فرد کی ترقی کا اہتمام کیا جائے۔ جب تک ایک ایک ستارہ روشن نہیں ہو گا اس وقت تک آسمان نہیں جگمگائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ اور بیدار قومیں اپنے افراد کی ترقی کا انتظام کرتی ہیں۔ انفرادی ترقی کیلئے منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ سرسید احمد خاں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی بنیاد رکھتے ہوئے اسی اصول کو مدنظر رکھا تھا۔ آج سے چودہ سو برس پہلے نبی کریم ﷺنے غزوہ بدر کے کافر قیدیوں کی آزادی کیلئے یہی شرط رکھی تھی کہ ہر قیدی دس مسلمانوں کو پڑھا دے تو آزاد ہے۔ مقصد یہی تھا کہ جب افراد تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں گے تو ملت اسلامیہ خودبخود علم و حکمت کی منزلوں پر گامزن ہو جائے گی۔

آج ہم آزاد ہیں۔ ہمارا وطن ہر شہری کو ملت پاکستان کے ہر فرد کو آواز دے رہا ہے کہ اپنے مقام کو پہچانو۔ زمانہ ہر آن نئی چال چل رہا ہے۔ اپنے اندر صلاحیتیں پیدا کرو۔ خوابیدہ قوتوں کو بیدار کرو۔ علم و ادب کے میدان میں شاہسوار بنو۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں نام پیدا کرو۔ کردار اور اخلاق کے حوالے سے عظمت اسلاف کی تقدیر بن جاؤ۔ اپنے روشن ماضی سے غیرتمند زندگی کا سلیقہ حاصل کرلو۔ اور پھر اپنی تمام ذہنی اور فکری صلاحیتوں کے گلاب ارض پاکستان کی نذر کردو۔ تاکہ وطن کا گوشہ گوشہ ترقی و خوشحالی کی روشنی سے پرنور ہو جائے۔ ملت نے اپنی تقدیر اپنے افراد کے حوالے کردی ہے اور اب افراد کا فرض ہے کہ ملت کی تقدیر کو رشک کائنات بنا دیں۔ وقت کا پیغام یہی ہے

ملت سے اپنا رابطہ استوار رکھ

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

آج ہم قومی سطح پر بےحسی اور پریشانی کا شکار ہیں۔ بھیک کا کشکول لے کر غیروں کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ اس قومی بےحسی کے ذمہ دار قوم کے وہ افراد ہیں جنہوں نے قوم و وطن سے محبت کرنا چھوڑ دی ہے۔ ان بدقسمست فرزندان قوم کو جان لینا چاہئے کہ ان کا مستقبل فقط اور فقط قوم سے وابستہ ہے۔ اگر قوم نہ رہی تو ان کا وجود بھی نہیں رہے گا۔ آج وقت ہے کہ صورت حال کا پوری دیانتداری سے جائزہ لیں۔ جس طرح درخت اپنی جڑوں سے کٹ کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس طرح کوئی فرد اپنی قوم سے تعلق توڑ کر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ہمیں اپنا رابطہ اپنی ملت کے ساتھ قائم رکھنا ہو گا۔ پھر ہی ہم ایک عظیم قوم کہلوانے کے حقدار بن سکتے ہیں وگرنہ نہیں، کبھی بھی نہیں۔

Check Also

Laut Aane Ko Par Tolay

By Mojahid Mirza