Tameez e Banda o Aaqa, Fasad e Aadmiat Hai
تمیز بندا و آقا، فساد آدميات ہی
تمام انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے یکساں ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی اس دنیا کی زندگی کے اشغال ان کے درمیان اتنا فاصلہ پیدا کر دیتے ہیں کہ وہ مختلف طبقوں اور گروہوں میں تقسیم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ طبقات بندی کا یہی امتیاز بنی نوع انسان میں باہمی آویزش کا باعث بنتا ہے۔ روز اوّل سے آج تک رنگ، نسل، اور خواجگی و بندگی کے مسئلہ پر ان گنت انسانوں کا سرخ لہو اس زمین پر بہا۔ انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کر دیے گئے۔ انسانی جسموں میں چھید کیے گئے۔ لیکن معزز قارئین اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے انسانیت کو ایک کامل و اکمل ضابطۂ حیات فراہم کیا۔ اس ضابطۂ حیات کے نافذ ہونے سے انسانی برتری کا بڑا مسئلہ آسانی سے حل ہو گیا۔
خواجگی و بندگی کا مسئلہ اس وقت ہی انجام کو پہنچا کہ جب اسلام کی بنیاد ہی سے یہی صدائیں گونج رہی تھیں کہ کسی کالے کو کسی گورے اور گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو کسی عجمی اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فوقیت و برتری حاصل نہیں ہے۔ ہاں اگر کچھ فضیلت کا معیار ہے تو وہ تقویٰ و پرہیز گاری ہے۔ معزز قارئین، ارکان اسلام کو دیکھیں تو ہمیں مساوات کا ایک عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ نماز کے دوران ایک امام کی اقتدا میں محمود و ایاز بلا امتیاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور نہ کوئی بندہ رہتا ہے اور نہ کوئی بندہ نواز، روزہ بھی مساوات کی اسی اسلامی تعلیم کا مظہر ہے کہ تمام امراوغربا اپنی نفسیاتی خواہشات کو مسخ کر کے اللہ پاک کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔
اسی طرح زکوٰۃ سے مقصود یہ ہے کہ امراورؤسا کا مال ان کی تجوریوں میں بند نہ پڑا رہے بلکہ گردش میں رہے اور اس دولت و ثروت سے غربا بھی مستفید ہو سکیں۔ یونہی حج بھی اسلامی مساوات کا ایک خوبصورت اور مثالی مظاہرہ ہے۔ دنیا بھر کے تمام مسلمان، مختلف خطوں کے باسی، مختلف بولیوں کے بولنے والے، مختلف رنگوں کے حامل، اور مختلف طرز بود و باش رکھنے والے، ایک ہی لباس میں، ایک ہی نوع کی وضع قطع میں، ایک ہی قسم کے اعمال بجا لاتے ہیں۔ معزز قارئین، قابل غور امر یہ ہے کہ نماز کی بجا آوری بزبان عربی ہی ہوتی ہے۔ مختلف جغرافیائی خطوں کے لوگوں نے اسے اپنی مقامی زبان کے مطابق کیوں نہ ڈھالا؟ اور نبی کریم ﷺنے یہ حکم کیوں نہ دیا کہ ملک ملک کے مسلمان اپنی بولی میں نماز پڑھ لیا کریں؟
یہ بھی اسلامی اتحاد کی اور مساوات کی عین دلیل ہے۔ آج اگر ہندو سماج کی کوئی شودر اور اچھوت عورت حلقۂ اسلام میں داخل ہوتی ہے اور نماز کیلئے کھڑی ہوتی ہے تواس کے منہ سے وہی الفاظ خارج ہو رہے ہوتے ہیں جو خاتون جنت سیدہ فاطمتہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا کی زبان مبارک سے نکل چکے ہیں۔ گویا وہ پہلے دن سے ہی اس جماعت کی ایک رکن بن جاتی ہے۔ جس میں بندہ و آقا کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ اسی طرح والئ حجاز جب نماز باجماعت کیلئے کھڑے ہوتے ہیں تو ایک مفلس اور ادنیٰ مسلمان کو کوئی طاقت اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے سے نہیں روک سکتی۔ یہی وہ اسلامی مساوات ہے کہ جس نے دنیا بھر کے مظلوموں اور مفلسوں کو اپنی طرف راغب کیا۔
اپنی ایسی ہی خصوصیات کے بل بوتے پر مذہب اسلام کے پیروکاروں نے قیصر و کسریٰ کے غرور کو اپنے گھوڑوں کے ٹاپوں سے روند ڈالا۔ اور وقت کی متمدن اور مسلح حکومتیں ان کے سامنے ایسی خشک پتیاں بن گئیں جو تیز آندھی میں تنکوں کی طرح اڑنے لگتی ہیں۔ کچھ مؤرخین نے اسلام کی ترقی و کامرانی کا راز تلوار کی دھار میں تلاش کرنا چاہا لیکن بے سود۔ دراصل ان کے ادراک کی اڑانیں حقیقت کی تہہ تک نہ پہنچ سکیں اور عقل و فکر تحّیر اور درماندگی کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوا۔ شاید وہ یہ فراموش کر بیٹھے کہ سیل اسلام جب صحرائے عرب سے اٹھا تو اس وقت مسلمانوں کا دامن مادی وسائل سے بلکل تہی تھا۔
لیکن یہ اتحاد و مساوات کا ہی اعجاز تھا کہ مسلح سے مسلح اور متمدن سے متمدن حکومتیں عرب کے صحرا نشینوں کے حضور جھک گئیں۔ ادھر اسلام کا آفتاب منور طلوع ہوا، ادھر بندہ و آقا کی تمیز و امتیاز کے تمام قواعد یکسر ٹوٹ پھوٹ کر رہ گئے۔ اسلام نے عربوں کو مساوات کا ایک خوبصورت درس دیا کہ تمام تفرقات ختم ہو گئے۔ اور عربوں کے مابین اتحاد و تنظیم کی ایسی صورت پیدا ہوئی کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔ ایسی دیوار کہ جس کی بنیادیں کسی طور بھی متزلزل نہیں ہو سکتی تھیں۔ ہجرت مکہ کے بعد آپ ﷺ نے مہاجرین مکہ اور انصار مدینہ میں اخوت کا ایک بے نظیر رشتہ قائم کردیا اور انہیں تسبیح کے دانوں کی طرح اخوت کی رسی میں پرو دیا۔ آپ ﷺ نے مساوات کا ایسا درس دیا کہ شاعر یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ
وہ برابری کا تو نے دیا درس آدمی کو
کہ غلام ناقہّ پر ہے تو امام چل رہا ہے
حضورﷺنے ملت کو ایک ایسا ٹھوس جسم بنا دیا تھا کہ جس میں محبت تھی، اخلاص تھا، اتحاد تھا، رواداری تھی، مساوات تھی، سرفروشی تھی، اور ایثار نفس تھا۔ یہی وجہ تھی کہ میدان حرب میں پانی کا جام ان کے قریب آتا ہے اور وہ اپنے دینی بھائی کیلئے کہتا ہے کہ اسے پلا دو اور سب جام کوثر سے سیراب ہو جاتے ہیں اور پانی کا جام ساقی کے ہاتھ میں ہی رہ جاتا ہے۔ معزز قارئین، یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ مساوات کی عدم موجودگی، غلام اور آقا کی تفریق، ادنیٰ اور اعلیٰ کا امتیاز، ذات پات کی سماجی درجہ بندیاں اتحاد و تنظیم کی روح کو کچل دیتی ہیں۔ اور یہی وہ چیزیں ہیں جو قوموں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کیلئے سمِ قاتل کا حکم رکھتی ہیں۔
آج ہمارے معاشرے کو بھی یہی طبقاتی امتیاز دیمک کی طرح چاٹ چکا ہے۔ سبب یہ ہے کہ آج کہ آج ہمارے بازارِ حیات میں اسلامی قواعد و ضوابط کا قحط ہے اور ہم نے اسلامی مساوات کے کلیہ کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سماج میں بندہ و آقا کی تمیز کو ختم کرنے کی پر خلوص مساعی عمل میں لائی جائیں اور مساوات کے اسلامی تصّور کا اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں میں اطلاق کیا جائے۔ اسی امر میں ہماری فلاح و کامرانی کا راز مضمر ہے۔ یہی ہمارے پیارے نبیﷺ کا ہمیں دیا جانے والا درس ہے، جس پر عمل کر کے ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔