Suna Hai Ke
سُنا ہے کہ
سنا ہے پاکستان میں مہنگائی اب بھی بہت کم ہے۔ سنا ہے یہاں ڈالر اب بھی سستا ہے۔ سنا ہے یہاں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں پوری دنیا سے سستی ہیں۔ سنا ہے کہ یہاں بجلی کی قیمت اب بھی بہت کم ہے۔ سنا ہے یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ سنا ہے یہاں پر آٹے کا کبھی بحران نہیں آیا، کیونکہ ہم گندم افغانستان کو سپلائی کرتے ہیں۔ سنا ہے یہاں پر پٹرول کا کبھی بحران نہیں آیا۔ سنا ہے یہاں پر چینی کبھی بلیک میں فروخت نہیں ہوئی۔ سنا ہے کہ یہاں پر کرپٹ عناصر کے خلاف بہت تیزی سے کاروائی اور سزائیں دی جاتی ہیں۔
سنا ہے یہاں پر کبھی رنگ روڑ سکینڈل سامنے نہیں آیا۔ سنا ہے پینڈورا پیپرز میں موجودہ حکومت کے وزراء کا نام نہیں آیا۔ سنا ہے اس حکومت میں غریب کو انصاف بہت جلد مل جاتا ہے۔ سنا ہے کہ پاکستان ایک نیو ریاست مدینہ بن چکا ہے۔ سنا ہے پاکستان کا وزیر اعظم بہت ہینڈسم ہے۔ سنا ہے یہاں پر سبھی FIVE STAR والی زندگی گزار رہے ہیں۔ سنا ہے ملک دیوالیہ نہیں ہو رہا بلکہ ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ سنا ہے منی بجٹ سے کوئی مہنگائی نہیں ہو رہی۔ سنا ہے کہ ہم آئی۔ ایم۔ ایف کے چنگل سے آزاد ہیں۔ اور سنا ہے کہ موجودہ تمام ناکامی اور ابتری کی وجہ پچھلی حکومتیں ہیں۔
یہ تمام سنی سنائی باتیں بدقسمتی سے ہم نے اپنے وزیراعظم صاحب اور ان کے وزراء کرام سے سنی ہیں، جن میں موجودہ صورت حال اور ان کی کہی گئی باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جب ان کی باتوں پر غور کریں تو دلوں میں ایک پکار جنم لیتی ہے کہ
شور تھا جس کا بہت، وہ انقلاب آیا نہیں
پختگی دیکھو انہیں پھر بھی حجاب آیا نہیں
کس قیامت کی نشانی ہے کہ اس کے عہد میں
ظلم سہہ کر بھی دلوں میں اضطراب آیا نہیں
کبھی وزیراعظم صاحب یا ان کے وزراء نے شہراقتدار سے باہر جھانک کر دیکھا ہے کہ لوگ کس طرح اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ صبح سے آئے قطار میں لگ کر، دھکے کھا کر اپنے مردہ جسم کو زخمی کروا کر چینی یا کھاد یا آٹے کیلئے جانے والوں کا ہمارے نیک، ایماندار، اور رحمدل وزراء کو کیا غم کہ اس ریاست مدینہ میں کھاد کی ایک ایک بوری کیلئے کیسے مرا جاتا ہے یا چینی اور آٹے کی بوری کو بلیک میں کیسے خریدا جاتا ہے۔
وہ در بدر ٹھوکریں کھانے والے ہم سے سوال کرتے ہیں کہ سنا ہے بابو! تم تحریریں بہت لکھتے ہو۔ کالموں کے انبار لگاتے ہو۔ ملکی ترقی کی بات کرتے ہو۔ اگر یہ بات ہے تو جاؤ اور ارباب بست و کشا تک ہمارا یہ سوال پہنچا دو کہ تم کس ترقی کی بات کرتے ہو؟ کس ملک کی بات کرتے ہو؟ اس ترقی کی جو آئی۔ ایم۔ ایف کے ہاتھوں گروی ہو چکی یا اس ملک کی جو ابھی تک سیاسی مفادات کی نذر ہوتا چلا آرہا ہے۔
تمام کاروباری سرگرمیوں کو مفلوج کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ سیاسی مفادات میں لپٹی سوچ کے حامل حکمران آخر کب تک عوام کا جنازہ دیکھتے رہیں گے؟ یہ عوام انہیں ووٹوں سے منتخب کرکے پارلیمنٹ بھیجتی ہے تاکہ وہاں جاکر یہ ان کی سہولت کا کوئی بل پاس کرواسکیں لیکن یہ پارلیمنٹ میں صرف اپنے مفادات کے حصول کیلئے بل پاس کروانے کیلئے سردھڑ کی بازیاں لگا دیتے ہیں۔ منی بجٹ ملک کیلئے سودمند ثابت ہو گا۔ موصوف نے ٹھیک کہا تھا یہ سودمند ہی ثابت ہو سکتا ہے فائدہ مند نہیں۔ اور اگر فائدہ مند ثابت ہو گا تو کس ملک کیلئے ہو گا؟
عوام پاکستان بھی سوال کرتی ہے کہ جس ملک میں ہم سانس لے رہے ہیں، وہاں نظام زندگی تو مفلوج کیا جاچکا ہے۔ لوگوں کو ضروریات زندگی میسر نہیں اور ہمارے وزراء آئے دن "سب اچھا ہے" اور "ملک ترقی کررہا ہے" کا راگ الاپ کر چلے جاتے ہیں۔ خدارا، وہ جھوٹ بولا جائے جس پر یقین بھی کیا جاسکے، ایک صاحب آئے روز دیپک راگ سنا کر چلے جاتے ہیں کہ ہماری حکومت آنے والی نسلوں کا سوچ رہی ہے۔
اس موصوف کو یہ بتایا جائے کہ اللہ کے بندے، آنے والی نسلوں کا بعد میں سوچ لینا، موجودہ نسل کو آپ نے مہنگائی اور بےروزگاری سے زندہ دفن کرنے کا سوچ رکھا ہے۔ ٹیکس ہم دے رہے ہیں، تکلیفیں ہم برداشت کر رہے ہیں، مافیاز کا شکار ہم ہو رہے ہیں اور آپ ہمارے بارے میں سوچنے کی بجائے آنے والی نسلوں کا سوچ رہے ہیں؟ آفریں ہے آپ کی سوچ پر، کبھی کبھی عوام یہ سوچتی ہے کہ کس حکومت سے پالا پڑا ہے؟
جو مار بھی رہی ہے اور گھبرانے بھی نہیں دے رہی۔ من مانی بھی اپنی کر رہی ہے اور احتجاج بھی نہیں کرنے دے رہی۔ جھوٹ بھی بول رہی ہے اور سچ بھی نہیں بولنے دے رہی۔ مہنگائی، بےروزگاری، غربت وافلاس کی چکی میں پیس بھی رہی ہے لیکن مان بھی نہیں رہی۔ چور بھی سبھی پکڑے ہوئے ہیں لیکن سزا بھی کسی کو نہیں دے رہی۔ ہمیں تو خان صاحب کے اس قول کی سمجھ نہیں آرہی جو انہوں نے ہمارے لیے ارشاد فرمایا تھا "مشکل وقت ختم مگر آگے آسانی نہیں "۔
جب ان باتوں کو ذہن کے دریچوں میں گزارتے ہیں تو احساس ہوتا ہے اور خیال آتا ہے کہ ہم تو نئے پاکستان میں جینے کی ادکاری کر رہے ہیں۔ یہی تھا وہ نیا پاکستان جس کے خواب ہمیں دکھائے گئے تھے، تاریخ بدلنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اور آج الحَمْد للهْ وہ سارے خواب پورے ہو رہے ہیں۔ تاریخ بدل دی گئی، لوگ باہر کے ملکوں سے ہمارے ملک میں نوکریاں کرنے آرہے ہیں۔ گھی دو سو سے تین سو ستر تک چلا گیا۔
آٹا بارہ سو سے بائیس سو تک جاپہنچا۔ پٹرول باسٹھ سے ایک سو پچاس کا ہو گیا۔ ڈالر ایک سو سے ایک سو اسی تک چلا گیا۔ چینی کا تو حال ہی نہ پوچھیں۔ ادویات کی تو بات کرنا ہی فضول ہے۔ اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟ پچھلی حکومت یا موجودہ حکومت؟ عوام کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ پانامہ پیپرز میں کس کا نام آیا اور پینڈورا پیپرز میں کن شخصیات کا نام آیا یا فارن فنڈنگ کی لپیٹ میں کون ہیں۔ وہ تو صرف عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی اپنے لیے اور اپنے بچوں کیلئے کمانا چاہتے ہیں۔ بار بار قربانیاں نہیں دی جاتیں۔
یہ قوم پہلے بھی بہت سی قربانیاں دے چکی ہے، اب اس قوم میں مزید قربانیاں دینے کی طاقت نہیں ہے۔ بس وہ کسی نہ کسی صورت آسانی اور سہولت کے متلاشی ہیں۔ مثال کے طور پر کاروبار کی سہولت، تعلیم کیلئے آسانی، علاج کی سہولت، صاف پانی کی فراہمی، اور سب سے بڑھ کر بے جا ٹیکسز سے چھٹکارا، کاش، کوئی جان سکے کہ عوام کیا ہوتی ہے اور حکمران کیا ہوتے ہیں اور کون لوگ ہوتے ہیں، کاش! کوئی سمجھ سکتا، اے کاش۔