1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sajid Ali Shmmas/
  4. Pakistan Ke Siyasi Halat Aur Taleemi Fikr

Pakistan Ke Siyasi Halat Aur Taleemi Fikr

پاکستان کے سیاسی حالات اور تعلیمی فکر

تعلیم کسی بھی قوم اور معاشرے کے لئے اعزاز اور اس کے استحکام کا باعث ہوتی ہے۔ زندہ قومیں اپنی تعلیمی ترقی اور علمی عروج کے لئے تمام توانائیاں صرف کر دیتی ہیں۔ اصحاب عمل اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ علم کا نور صرف دلوں میں ہی اجالا نہیں کرتا بلکہ قومی ترقی اور فکری سربلندی کیلئے بھی یادگار کردار ادا کرتا ہے۔ وہ قومیں جو دور حال کی شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے روشن ماضی کے ایوانوں میں داخل ہونا چاہتی ہیں وہ تعلیمی فکر اور علمی تدبیر کو مشعل راہ بنا کر آگے بڑھتی ہیں۔

مگر جب تعلیمی فکر کے حوالے سے پاکستان کے سیاسی حالات کا جائزہ لیا جائے تو علم و عمل کا گلستاں، خزاں آلود نظر آتا ہے۔ ذہن منجمند اور افکار بوجھل دکھائی دیتے ہیں۔ علم کا چراغ بے نور اور تعلیم کا سرچشمہ آب حکمت سے محروم نظر آتا ہے۔ تعلیمی فکر کے انحطاط کے جہاں اور بہت سے عوامل کارفرما نظر آتے ہیں وہاں سب سے بڑا سبب سیاسی عدم استحکام ہے جس نے ملک کی قومی ترقی کے دھارے کو روکنے کے ساتھ ساتھ علمی دانشکدوں سے بھی ان کا حسن چھین لیا ہے اور ہر فرد نوحہ خواں نظر آتا ہے کہ

جہل خرد نے دن یہ دکھائے

گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے

ملک کو سیاسی استحکام نصیب ہو تو جمہوریت کے نخل تن آور پر حب الوطنی کے برگ و بار لگتے ہیں۔ حقوق و فرائض کا تعین ہونے لگتا ہے افراد مطمئن اور ادارے مضبوط ہو جاتے ہیں مگر پاکستان میں سیاسی ابتری نے ہم سے روشن مستقبل کے خواب چھین لیے ہیں اجلے دنوں کے مسافر ظلمت کدوں کے راہی بن گئے ہیں۔ ہماری فکری کجروی کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ

کیا ستم ڈھایا کہ ظلمت کو ضیا کہتے ہیں

کتنے سادہ ہیں کہ صرصر کو صبا کہتے ہیں

قائداعظم نے جمہوریت کے نام پر ہمیں پاکستان دیا بعد کے ادوار میں وہ سیاسی ابتری پھیلی کہ الامان۔۔۔ جب سیاست قومی ایوانوں سے سفر کرتی ہوئی تعلیمی اداروں میں داخل ہو جائے تو تعلیمی فکر ایک خواب پریشاں بن کر رہ جاتی ہے۔ اسی خواب پریشان نے تعلیمی نظام درہم برہم کر کے رکھ دیا۔

قائداعظم نے فرمایا تھا طالب علم میری قوت ہیں۔ یہ پاکستان کا مستقبل ہیں۔ کتاب ان کا ہتھیار اور علم ان کا اسلحہ ہے مگر افسوس کہ ہم نے قائداعظم کے ارشادات کو فراموش کردیا۔ آج ہماری تعلیمی ابتری کا یہ عالم ہے کہ آج طالب علم کے ہاتھ میں کتاب نہیں بلکہ کلاشنکوف ہے، اسے علم سے نہیں بلکہ بارود سے پیار ہے، وہ تعلیمی فکر سے عاری اور جبر و تشدد کا علمبردار ہے، زبان اس کی کالی ہے، منہ میں اس کے گالی ہے، کان میں اس کے بالی ہے۔

جب فضا میں ہر طرف پھیلا ہوا بارود ہو

کیوں نہ پھر تدبیر ہر اک علم کی بےسود ہو

سیاست کی مسموم اور زہرآلود ہواؤں نے گلزار عالم سے اس کی بہاریں چھین لی ہیں۔ طلباء کو سیاسی جماعتوں نے اپنا دست بازو یا حلیف بنا لیا وہ طالبعلم جنہیں کتاب، استاد اور درسگاہ سے محبت ہونی چاہیے تھی، جنہیں علم کی سر بلندی کی خاطر جینا اور فروغ تعلیم کے لئے مرنا تھا وہ فقط سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بن کر رہ گئے۔ انہیں تعلیم کے مستقبل سے زیادہ اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں کا مستقبل عزیز ہوگیا اسی طرح علمی دانش کدوں کے اندر منی سیاسی جماعتیں قائم ہوگئیں نئے نعرے ایجاد ہونے لگے کسی زمانے میں طلبہ یونین طلباء کے علمی مفاد اور تعلیمی احیاء کے لیے کوشاں رہتی تھی آج یہ نام نہاد رہنما اپنی جماعتوں کی بالادستی اور اپنی ذاتی مصلحت کی جنگ لڑ رہے ہیں

وائے ناکامی متائے کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

ابھی بھی میرے خیال میں کچھ زیادہ نہیں برباد ہوا۔ تعلیمی مقاصد کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے ہم سب کو ذاتی مفادات اور سیاسی وفاداریوں سے بالاتر ہو کر سوچنا ہوگا۔ حکومت کوئی بھی ہو، سیاسی جماعت کوئی بھی ہو، ہر حالت میں ملک سے وفاداری اور تعلیمی پاکیزگی کو مدنظر رکھنا ہوگا سیاسی جماعتوں کو بھی تعلیمی اداروں پر رحم کھانا چاہئے۔ طالب علم کو سوچنا چاہیے کہ وہ اول و آخر طالب علم ہے۔ وہی طالب علم جو کبھی غزالی بنتا ہے تو کبھی رومی، کبھی رازی بنتا ہے تو کبھی بوعلی سینا، کبھی محمد علی جناح بنتا ہے تو کبھی محمد اقبال۔۔۔ لیکن اس کیلئے مفاد پرستی کی زنجیروں سے اپنے آپ کو آزاد کرنا پڑتا ہے۔ پھر ہی آج کا طالبعلم کل کا راہنما کہلانے کا حقدار بن سکتا ہے۔

Check Also

Laut Aane Ko Par Tolay

By Mojahid Mirza