Pakistan Atomi Quwat Aur 21vi Sadi Ke Taqaze
پاکستان ایٹمی قوت اور اکیسویں صدی کے تقاضے
میں تاریخ کے آئینہ خانے کے سامنے کھڑا ہوں۔ پاکستان دو لخت ہو چکا تھا۔ کراچی میں عظیم الشان ایٹمی مرکز قائم کرنے والی کینیڈا کی حکومت ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت پاکستان سے ناراض ہوگئی اور کینیڈا کی حکومت نے یہ کہہ کر ایٹمی مرکز کے چیئرمین سے لے کر ادنیٰ کارکن تک واپس بلا لیے کہہ اب پاکستان کا سب سے بڑا شہر اندھیروں میں ڈوب جائے گا اور پاکستان کی معیشت کا بازوئے شمشیرزن مفلوج کردیا جائے گا۔ پوری قوم ایک بھیانک خواب سے دوچار تھی کہ پاکستان کے اس وقت کے مقتدر اعلیٰ کی آواز گونجی کہ ہم گھاس کھالیں گے مگر پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے سائنسی اور ایٹمی قوت ضرور حاصل کریں گے۔
یہ نعرہ ایک فرد کا نہیں بلکہ پوری قوم کا تھا۔ فرد متنازعہ ہو سکتا ہے مگر یہ حقیقت غیر متنازعہ تھی کہ پاکستان کی ترقی کا راز سائنسی اور ایٹمی قوت میں مضمر ہے۔ کارخانوں کا چلنا، مشینوں کے پہیوں کاحرکت میں رہنا، زمینوں کا سونا اگلنا، ہمالیہ صفت بیراج تعمیر کرنا، پانی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ بجلی کی ترسیل کو بڑھانا، معاشرتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے مسائل پر قابو پانا، وسائل اور ذرائع کے ان دیکھے جزائر کی دریافت، یہ سب سائنسی ترقی کا کمال ہے جو معاشی ترقی کو اپنے شانہ بشانہ لئے عظمت قوم و وطن کا نیا باب اس اعلان کے ساتھ رقم کررہی ہے کہ
کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
میری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد
مقام شوق تیرے قدسیوں کے بس کا نہیں
انہی کا کام ہے جن کے حوصلے ہیں زیاد
سائنس فطرت کے مشاہدات کو بروئے کار لانے کا نام ہے۔ سائنس کی ترقی تہذیب و تمدن کی ترقی ہے۔ سائنسی علوم کا ارتقاء پاکستان کی معاشی ترقی کا منطقی عمل ہے۔ سائنس لفظوں کے گھروندے نہیں بناتی بلکہ عمل پیہم کا حسن نکھارتی ہے۔ معاشی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہر فرد خوشحال نہ ہو۔ ہر ایک کو روزگار میسر نہ ہو۔ پیٹ بھرے ہوئے اور جسم کپڑوں سے سجے ہوئے نہ ہوں۔ انسانوں کو امن و راحت کی چھت میسر نہ ہو۔
اگر اس حقیقت کو کسوٹی جان کر پرکھا جائے تو پاکستان کی سائنسی ترقی کے سائے میں معاشی ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوتا نظر آتا ہے۔ سائنس صرف خلاؤں کو ہی تسخیر نہیں کرتی، بنجر زمینوں سے اناج کے موتی اگاتی ہے۔ اگر ملک میں سائنسی ترقی کا عمل محدود تر ہوتی ہوئی زمینوں سے لامحدود اناج نہ اگاتا تو کسانوں کا طبقہ کب کا بھوک کی صلیب پر لٹک گیا ہوتا۔ سائنس صرف ایٹم بم بنانے کا نام نہیں۔ جوہری توانائی ملک میں پھیلے ہوئے کاخانوں کے جال کو نئی زندگی دےرہی ہے۔ یہی کارخانے ہیں جہاں لاکھوں مزدوروں کا معاشی مستقبل وابستہ ہے۔
ہمارے محسوسات کو اکیسویں صدی کی چھاپ سنائی دے رہی ہے۔ یہ عین فضل ربی ہے کہ جب اکیسویں صدی کا سورج طلوع ہورہا ہو گا تو ہمارے عظیم سائنس دانوں کو جوہری توانائی کو تسخیر کیے ہوئے کتنے سال بیت چکے ہوں گے۔ ستاروں پر کمندیں ڈالنے والوں کے ہاتھوں معجزہ رونما ہوگیا۔ ایٹمی دھماکوں کے ساتھ ہی پاکستان ایٹمی قوت بن گیا۔ کل بھی پرتھوی راج کے مقابلے میں محمد غوری تھا اور آج پرتھوی کے ناپاک عزائم کو غوری میزائل خاک میں ملا رہا ہے۔
تاریخ نے خود کو پوری شان کے ساتھ دہرایا ہے۔ اکیسویں صدی نئے تقاضے اور آزمائشیں لےکر آرہی ہے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی زیر قیادت مسافران شوق کا ہراول دستہ پوری قوم کو اس عزم سے آراستہ کرچکا ہے کہ
خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے
یقین پیدا کر اےغافل کہ مغلوب گماں تو ہے
پرے ہے چرخ نیلی فام سےمنزل مسلماں کی
ستارے جس کی گرد راہ ہو وہ کارواں تو ہے
جب پرآشوب آندھیوں کی آمد ہو تو شاہیں پہلے ہی پرپھیلا لیتا ہے۔ جب زندگی بحرانوں کی زد میں ہو تو محبان وطن پہلے ہی حب الوطنی کے چراغ روشن کرلیتے ہیں۔ جب سفر طویل اور کٹھن ہو تو جادہ پیما سرشام ہی سامان سفر باندھ لیتے ہیں۔ یہ لفظوں کی اڑان نہیں بلکہ زندہ قوموں کا انداز حیات ہے۔ یہی انداز حیات 28 مئی 1998ء کو چاغی کی پہاڑیوں سے عزم و عمل کا سرچشمہ بن کر ابھرا۔ ایٹمی دھماکے ہوئے۔ ایک طرف سبز ہلالی پرچم کی اڑان نعرۂ تکبیر سے ہم آہنگ ہوگئی اور دوسری طرف ان دھماکوں کی صدائے بازگشت سے ہندو، رام راج کی کوکھ سے جنم لینے والوں کے سینے شق ہو گئے۔
اکیسویں صدی کا تقاضا ہے کہ کشمیر کے شہداء کے لہو کا قرض چکایا جائے۔ کشمیر کے چنار سلگ رہے ہیں۔ جہاں ہر گھر مورچہ ہے اور ہر گلی میدان جنگ۔ جہاں بچے آزادی کے نام پر جنم لیتے اور جوان شہادت کے نام پر موت کو سینے سے لگاتے ہیں۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کررکھ دیا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے قبل بھارت نے ایٹمی دھماکے کرتے ہی کشمیریوں کو کچلنے اور پاکستان پر حملہ آور ہونے کا اعلان کردیا تھا مگر پاکستان کے ایٹمی دھماکوں نے اس اعلان کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں، اور اپنی مرضی منوانے کا دعویدار بھارت پاکستان سے مذاکرات کی میز پر آنے کی درخواست کرنے لگا۔
اکیسویں صدی عالم اسلام کو مضبوط اور متحد دیکھنا چاہتی ہے۔ بیت المقدس، بوسینیا، چیچنیاکی غلامی کی رات کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ طاغوتی طاقتیں پہلے ہی عراق کے ایٹمی پروگرام پر شب خون مار چکی ہیں۔ پاکستان کی ایٹمی قوت پورے عالم اسلام کا اعزاز اور شوکت ایمان کا پیغام ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے۔ اور اس کا سب کچھ اسلام کیلئے ہے۔ اب پاکستان کی ایٹمی قوت کے سائے تلے دنیا نیل سے لے کر تابخاک کاشغر تک عالم اسلام کو متحد ہوتے اور زمانے بھر کی امامت و قیادت کا تاج پہنتے دیکھے گی۔
عالم اسلام امن و سکون کیلئے ترس رہا ہے۔ پاکستان کی ایٹمی قوت زمانے بھر کیلئے امن و راحت کا پیغام ہے۔ ہمارے ایٹمی دھماکوں نے وطن عزیز کی سرحدیں محفوظ کردی ہیں۔ جب سرحدیں محفوظ ہوں تو کھیتوں میں ہل اور کاخانوں کا پہیہ چلتا ہے۔ سرحدیں محفوظ ہوں تو شاعر کے قلم اور مغنی کی نوا سے امن کے ترانے پھوٹتےہیں۔ سرحدیں محفوظ ہوں تو علم کو عروج اور معیشت کو کمال حاصل ہوتا ہے۔ سرحدیں محفوظ ہوں تو ستاروں پر کمندیں ڈالنے اور مہروماہ کو تسخیر کرنے کے عزائم جنم لیتےہیں۔ سرحدیں محفوظ ہوں تو غربت و جہالت کو پاؤں تلے روندنے کا حوصلہ بیدار ہوتا ہے۔
پاکستان کی ایٹمی قوت اکیسویں صدی کے تقاضوں کا عملی جواب ہے۔ اب فقط لفظوں کے پھول نہیں بکھیریں گے بلکہ امن کی کہکشاں بھی اترے گی۔ میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں حصّہ لینے والے اور اس مشن کو مکمل کرنے والے محبان وطن کو سلام کرتے ہوئے اس عزم کے ساتھ صرف یہی لکھوں گا۔۔ کہ
وقار انجمن ہم سے ہے فروغ انجمن ہم ہیں
سکوت شب سے پوچھو صبح کی پہلی کرن ہم ہیں
طلوع آفتاب نو ہمارے نام پر ہوگا
وہ جس کی خاک کے ذرے ہیں خورشید وطن ہم ہیں