Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Ali Shmmas
  4. Murree Main Mari Hui Yadein

Murree Main Mari Hui Yadein

مری میں مری ہوئی یادیں

چند دنوں سے میں دیکھ رہا تھا اور پڑھ رہا تھا کہ سانحہ مری پر کافی قلم آرائی ہوئی۔ کافی کالم لکھے گئے، تجزیے ہوئے، تبصرےکیےگئے، سماجی میڈیا پر بھی "مری آفت زدہ" اور "قاتل مری" جیسے ٹرینڈ چلائے گئے۔ لیکن میں نے اس سانحے پر کچھ نہیں لکھا۔ جونہی اس حادثے کو لوگ بھولنے لگے، مطلب ماضی کی طرح پہلے تین دن سوگ اور پھر وہی روگ کا فارمولا لاگو کرنے لگے تو میں نے بھی اس واقعے پر لکھنے کی زحمت اُٹھائی۔ بائیس قیمتی جانیں چلی گئیں لیکن مری میں مری ہوئی یادیں چھوڑ گئیں۔

میں یہ بیان نہیں کروں گا کہ اس سانحے کا ذمہ دار کون ہے یا اس سانحے کا موجب بننے کی کوشش کس نے کی یا پھر یہ سانحہ کیوں پیش آیا۔ کیونکہ میں اس وقت موقع پر موجود نہیں تھا اور نہ میں اس حادثے کا عینی شاہد ہوں۔ اس سانحے کی جو ویڈیوز موصول ہوئیں یا جو انکشافات عیاں ہوئے انہی کا تزکرہ اگر ہو جائے تو بہت بڑی بات ہے۔

سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ ہم نے کبھی خود کو جلتی آگ سے بچانے کیلئے کوئی کوشش کی یا خود چل کر اس میں کودنے کے عمل کو انجام دینے کیلئے معذرت کی۔ فرض کریں اگر یہ اعلان ہو جائے کہ کل شام فلاں علاقے میں فلاں ٹائم، یہ خطرناک منظر پیش آئے گا۔ اگر آپ وہاں جانا چاہیں تو جاسکتے ہیں لیکن آپ کی جان بھی جاسکتی ہے۔ ہم نے کبھی وہاں جانے سے اجتناب کیا؟ اسی طرح شاید آپ کو یاد ہو ایک بار سانحہ بہاولپور بھی رونما ہوا تھا۔

ایک آئل ٹینکر اُلٹ گیا، سارا تیل سڑک پر بہنے لگا۔ لوگوں کی عقل گھاس کھانے چلی گئی تھی۔ گھاس کھانے کے بعد انہوں نے حد ہی کر دی تھی۔ ڈرموں اور بالٹیوں کے زریعے اس تیل کو اکٹھا کرنے لگے تھے۔ صد حیف ان کی مدبرانہ سوچ پر جنہوں نے یہ نہ سوچا کہ ایک آگ کی چنگاری ان کو ابدی نیند سلا دے گی۔ اور وہی ہوا تھا جس کا ڈر تھا، ایک سو نوے افراد زندہ جل گئے تھے۔ اور حال ہی میں پاکستان کو کورونا لاک ڈاؤن سیزن سے گزرنا پڑا۔

لاک ڈاؤن لگانے سے تین دن قبل جب اعلان ہوتا تھا کہ کورونا کے بڑھتے کیسز کی وجہ سے لاک ڈاؤن لگانا پڑے گا تو یقین مانیں لاک ڈاؤن سے تین دن پہلے جو مارکیٹوں اور بازاروں میں لوگوں کا سمندر امڑ آتا تھا اور اس ہجوم کی وجہ سے کورونا کے جو کیسز حد سے زیادہ بڑھ جاتے تھے، لاک ڈاؤن کا مقصد ہی ختم ہو جاتا تھا۔ سانحہ مری(غفلت مری) بھی کچھ اسی طرح کے مناظر کی عکاسی کرتا ہے۔

یہ زندگی کا اصول ہے کہ انسان اپنے لیے آسانیاں بھی خود پیدا کرتا ہے اور اور مشکلات کا موجب بھی خود بنتا ہے۔ اللہ پاک کبھی نہیں پسند کرتے کہ اس کے بندے کو کوئی تکلیف پہنچے کیونکہ اللہ پاک اپنے بندے کہ ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے۔

آپ ایک بات سمجھنے کی کوشش کریں کہ محکمہ موسمیات نے الرٹ جاری کیا تھا کہ مری میں برفانی طوفان آئےگا، اور تباہی مچائے گا لیکن اس الرٹ کو سن کر بھی ignore کیوں کر دیا گیا؟ سیاح کس جلدی میں تھے کہ ان کو ہر حال میں مری پہنچنا ہی تھا؟ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ روکنے والوں نے ان رستوں کو بلاک کیوں نہیں کیا جو ذمہ داروں کی غفلت کا نوحہ سنا رہے تھے۔

سانحہ مری کی جو تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے اس میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے سانحے کے دوران مری کے داخلی راستوں اور سڑکوں سے لگ بھگ پچاس ہزار، جی ہاں پچاس ہزار گاڑیوں کو واپس بھیجا۔ یہ تمام گاڑیاں مری کی جانب رواں دواں تھیں۔ اگر یہ گاڑیاں نہ روکی جاتیں تو مزید افراد اس المناک حادثے کی بھینٹ چڑھ سکتے تھے۔ یہ ہے ہماری سیریس نیس؟ اگر اس حادثے کا ذمہ دار صرف انتظامیہ یا حکومت کو ٹھہرایا جائے تو سراسر ناانصافی ہے۔ کیونکہ اس سے زیادہ ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو منع کرنے کے باوجود وہاں پر گئے۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ ہم غفلت اور لاپرواہی کرنے والی قوم ہیں۔

اگر ایک دن ٹھیک طرح سے بارش ہو جائے تو ہمارے گلی محلے دریا کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں۔ ان میں "طغیانی" آجاتی ہے۔ گلیوں سے کوئی پانی نکالنے کیلئے آتا نہیں۔ مگر وہ تو پہاڑی علاقہ تھا۔ جہاں برف ہی برف تھی۔ ہم نے سوچ کیسے لیا کہ وہاں سب کچھ ٹھیک ہو گا؟ سڑکوں سے برف ہٹا دی گئی ہو گی۔ ہمارا یہ سب کچھ ٹھیک سوچنا بھی غفلت اور لاپرواہی کے زمرے میں آتا ہے۔ اتنے طوفانی موسم میں کون سی تفریح تھی؟ چند ہزار بلکہ یوں کہیں کہ چند سو بلکہ برف باری میں یہ کہنا بھی مناسب ہو گا کہ چند ایک گاڑیوں کی گنجائش والے علاقے میں اگر کئی ہزار گاڑیاں داخل ہو جائیں تو وہ سانحہ مری بن جاتا ہے۔

انتظامیہ نے انکشاف کیا کہ انہوں نے ابھی پچاس ہزار گاڑیاں واپس بھیجی ہیں۔ تو ایسی صورت میں ہمیں اللہ پاک کا شکر ادا کرنا چاہیےکہ ہماری اتنی بے حسی، لاپرواہی، غفلت، اور کم ظرفی کے باوجود اللہ پاک نے ہمیں بڑے سانحے سے بچا لیا۔ ان بائیس قیمتی جانوں کا ہمیں دکھ اور افسوس ضرور ہے لیکن ہم الفاظ کا جو بھی ذخیرہ تلاش کرلیں، وہ واپس نہیں آئیں گے۔ اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے! آمین۔

اس سانحے میں قومی بےحسی کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ سانحہ ہونا تھا جو ہو گیا، اور دوسری بات یہ کہ وہاں کے باشندوں نے ان لوگوں کے ساتھ جو رویہ اپنایا، اس رویے نے وفات پانے والے لوگوں کی ارواح تک کو چھلنی کردیا۔ منافع خور طبلچی اس طوفان کے خوف کو بھی محسوس کرنے سے قاصر رہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کا منہ مانگا دام وصول کرنے لگے، ہوٹلوں کے کرایوں نے لوگوں کو برف پر کھڑا رہنے کیلئے مجبور کردیا۔

کبھی ہم نے یہ سوچنے کی زحمت اٹھائی کہ ہم کر کیا رہے ہیں؟ مجھے یہ بات سن کر بڑی حیرانی اور افسوس ہوا کہ وہ لوگ سردی سے ٹھرٹھر کانپ رہے تھے اور وہ منافع خور پیسہ کمانے کیلئے سردھڑ کی بازیاں لگا رہے تھے۔ اسی لیے کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ ہتھیار انسان کی جان نہیں لیتا لیکن پیسہ ضرور لیتا ہے۔

ہم اسلام سے بہت دور جاچکے ہیں۔ ہم تعلیمات رسولﷺ بھلا بیٹھے۔ امانت، دیانت، شرافت، صداقت، فراست، سخاوت، مہمان نوازی، رحمدلی، فیاضی، اور کسی کے کام آنے کیلئے موقع کی تلاش میں رہنا جیسی عادتوں سے ہم کوسوں دور جاچکے۔ ہم سب کچھ بھول گئے، ہم یاداشت کھو بیٹھے، ہمارا جغرافیہ بدل گیا، ہماری شناخت بدل گئی، تشخص مسخ ہو گیا۔ ہم، ہم نہ رہے، ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ ہم کس کے انتظار میں اپنا وقت ضائع کررہے ہیں۔

ہماری اخلاقی پستی کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ یہاں ایمرجنسی کی صورت میں دوائیں نایاب ہوجاتی ہیں۔ فیس ماسک، سینیٹائیزرز، بلیک میں فروخت ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ایمرجنسی کی صورت میں ملک منافع خور طبلچیوں کی زد میں آجاتا ہے لیکن کسی بڑے کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ مری میں سیاحوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، وہ بہت دردناک ہے۔ مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ ظلم تھا، جو ان پر کیا گیا۔ دولت کے پجاریوں نے دولت کی پوجا کی لیکن اپنا سب کچھ گنوادیا۔ مری میں مری ہوئی یادیں چھوڑ دی گئیں جو درد رکھنے والے لوگوں کے قلوب واذہان پر ہمیشہ رقص کرتی رہیں گی۔

ہمیں بھی اب یہ سمجھ لینا چاہیےکہ اگر محکمہ موسمیات خبردار کررہا ہے کہ آج یا کل سمندری طوفان آنے کے امکانات ہیں تو ہمیں سمندری طوفان کو مدنظر رکھتے ہوئے ساحل سمندر پر ہرگز نہیں جانا چاہئے۔ یہ نہیں کہ ہمیں اعلان کرنے کے باوجود ذبردستی روکا جائے یایہ کہ پہاڑی علاقوں پر خطرناک برفباری کا الرٹ جاری کردیا گیا ہو لیکن ہم پھر بھی جوق درجوق وہاں جانےکی کوشش کریں تو اس میں ہمارا ہی نقصان ہے۔

جب کوئی سانحہ رونما ہو جاتا ہے تو پہلے تین دن سوگ اور پھر وہی روگ، کیا ہمیں کسی بھی سانحے کو آسانی کے ساتھ برداشت کرنے کی عادت پڑ چکی ہے یا پھر ہم کسی بڑے سانے کے منتظر ہیں؟کیونکہ یہ بھی سچ ہے کہ:

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

سانحہ ایک دم نہیں ہوتا

Check Also

Riwayat Aur Ijtehad

By Muhammad Irfan Nadeem