Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Ali Shmmas
  4. Kya Ye Bhi Koi Zindagi Hai?

Kya Ye Bhi Koi Zindagi Hai?

کیا یہ بھی کوئی زندگی ہے؟

کہاں کے عشق و محبت، کدھر کے ہجر و وصال

ابھی تو لوگ ترستے ہیں زندگی کیلئے

معزز قارئین۔

یہ شعر گہرے کرب اور درد کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ یوں کہیے کہ جیسے صدیوں کی آفاقی سچائی نے اس شعر کا لبادہ اوڑھ لیا ہو۔ ملال انگیز ساعتوں نے مستقل طور پر ہمارے عہد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہو۔ زوال و ادبار نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنے پنجےگاڑھ دیئے ہوں۔ حسن و عشق کے قصے اب ماضی کے فسانے بن گئے ہیں۔ گوشت پوست کا بنا ہوا انسان مشینی دور میں بھی پس رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہم اندھیروں کے مکیں، پستیاں ہمارا مقدر، ذلتیں ہمارا اثاثہ، اور مصیبتیں ہمارا سرمایہ بن چکی ہوں۔ ایسے دور میں ایک حساس دل چیخ چیخ کر اٹھتا ہےکہ۔

ہونٹ خاموش ہیں، اک مرگ کا سناٹا ہے

ہم تو شرمندہ ہیں اس دور کے انساں ہو کر

معزز قارئین۔

آج میں آپ کی سوچ کے بالکل برعکس لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ ہم حسن و جمال اور عشق و محبت کا تذکرہ تو کرتے ہیں لیکن ہم عملی طور پر کر کیا رہے ہیں؟ ہم نے تو اوروں کی پھینکی ہوئی بوٹی کے عوض اپنے ہی بھائیوں کی بوٹی بوٹی کر ڈالی تو کبھی ایسا کرنے والے کو دیکھتے ہوئے مکمل چپ سادھ لی۔

یہ بھی کوئی زندگی ہے؟ جس میں انسانیت شرم سے منہ چھپا رہی ہے۔ ہم نے جس نام نہاد زندگی کی صلیب اپنے کاندھوں پر سوار کر رکھی ہے، کیا ہم نے کبھی اس صلیب کی کربناکی کو محسوس کرنے کی زحمت اٹھائی؟ زندگی تو انسانیت سے عبارت ہے لیکن انسانیت اس وقت دم توڑ دیتی ہے جب انسانوں کی زندگی کے اسباب مفلسی کی گرد میں گم ہو جاتے ہیں۔ سسک سسک کر جینا، موت کے بھیانک سایوں تلے جینا، بلکتے ہوئے جذبوں، ویران آنکھوں اور مرگ ناگہانی اور فاقہ کشی کے پہاڑ تلے دب کر جینا بھی کیا کوئی زندگی ہے؟

یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا

کہ اس پردیس کی جنتا سسک سسک کر مرے

زمین نے کیا اس کارن اناج اگلا تھا

کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کر مرے

معزز قارئین۔

وزراء اور امراء کے پلازوں اور محلات کو چند منٹوں کیلئے ذہن سے نکال کر ان لوگوں تک نظر گھمائیے جنہیں "عوام" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جنہوں نے فاقہ کشی کے ہاتھوں موت پر زندگی کی تہمت دھر رکھی ہے۔ گھی، آٹا، چینی، پٹرول، غرضیکہ تمام زندگی طلب چیزیں آسمان تک پہنچائی جا چکی ہیں تاکہ عام آدمی وہیں جاکر یہ چیزیں خرید لے۔ کرائے اتنے زیادہ کہ پیدل بھی چلیں تو چلا نہ جائے۔ اشیائے خوردنی نایاب بلکہ اتنی مہنگی کہ جینا چاہیں تو جیا نہ جائے۔

پیٹ خالی ہوں تو رازداروں کے سامنے رونا چاہیں تو رویا نہ جائے۔ خالی پیٹ پھٹے پیرہن پاؤں اور سر سے ننگے انسان جو فٹ پاتھ کی زینت بنے ہوئے ہیں، ان کی بات کریں تو کوئی سننے کو تیار نہیں لیکن کہے بغیر رہا بھی نہ جائے۔ کیا یہی وہ مستقبل ہے؟ جس کے خواب ہم نے آنکھوں میں سجا رکھے تھے۔ کیا یہی ہے وہ تبدیلی جس کے ہم نے فضول نعرے لگا رکھے تھے۔ کیا یہی وہ زندگی ہے جس کیلئے حسن و جمال کا خراج مانگ رہے تھے۔

معزز قارئین۔

آج مائیں اپنے بچے فروخت کر رہی ہیں۔ خودکشی قومی نشان بنتی جارہی ہے۔ گالی قومی زبان بنتی جارہی ہے۔ عید پر بچے نئے کپڑے مانگیں تو نہ ہونے کے سبب ان کو دریاؤں میں پھینکا جارہا ہے۔ غریب خودسوزی کر رہے ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں۔ کہتے ہیں جب بغداد لٹا تھا، جب دمشق سنسان ہواتھا، جب فلسطین اور بوسینیا میں سوگوار لاشوں کے انبار لگے، انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کیے گئے، انسانی جسموں میں چھید کیے گئے تو اس وقت بھی مائیں اپنے جگر پاروں کو بیچ کر زندگی کی خیرات مانگ رہی تھیں۔ جنگ عظیم اول اور دوم کو دیکھیے تو انسانیت اپنی قبریں کھودتی نظر آتی ہیں۔ معلوم نہیں گزشتہ ادوار سے اب تک ذلت و خواری کے مظاہر میں کس کس نے اپنے آنسوؤں کو ساحر کی زباں دی ہو گی۔

معزز قارئین۔

اگر ہم "زندہ" رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں زندگی کا سراغ لگانا ہو گا۔ وہ زندگی جو صاحبان اقتدار کے کاخ و ایوان کی زینت بنی ہوئی ہے۔ لیکن، لیکن ہمارے مقدر میں تو سسکنا ہی لکھا ہے۔ عصر حاضر نے ہمیں کیا کچھ نہیں دیا؟ یہ خود کش حملے، مساجد اور تعلیمی اور مقدس درسگاہوں کا برباد ہوتا تقدس۔ غربت و افلاس کا آخری نقطہ عروج۔ اب تو موت سستی تھی لیکن زہر بھی نایاب ہو گیا تو جینا روز محشر سے کم دردناک نہ ہو گا۔

ہمارے بہت سے دانشور تو عصرِ حاضر کو انسانیت کی معراج قرار دے رہے ہیں لیکن یہ کیسی معراج ہے؟ کہ چاروں طرف سسکیاں ہیں، آہیں ہیں، فریاد ہے، بدحالی بے، بدکاری ہے، درندگی ہے، اور سب سے بڑھ کر استبدادی طاقتوں کا ہماری مقدس سرحدوں پر دستک کا خوف ہے۔ بلکہ ان سے ہماری مقدس درس گاہوں کو خطرہ ہے۔ درندگی کے بڑھتے واقعات کو دیکھتے ہوئے لوگ اپنے بچوں کو گھروں میں قید کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

معزز قارئین۔

میں ایسے دور پرآشوب میں خدا کی رحمت کے سہارے پھر سے زندگی کے خواب بُنتا ہوں۔ کاش! کوئی مانجھی نکلے اور ملت کی ہلکورے کھاتی ناؤ پار لگا دے۔ کاش! کوئی تو فلک بوس محلات سے نیچے اترے۔ کوئی تو غریب ختم کرنے کی بجائے غربت کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔ اصحابِ سیاست میں کوئی تو ایسا ہو جو ہمیں معیشت کی ترقی کی محض خوشخبری ہی نہ سنائے بلکہ غریبوں کے بچوں کے پیٹوں پر بندھے ہوئے پتھر دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہو جائے۔

خدا گواہ ہے کہ اگر صاحبان ِاقتدار ایک دفعہ بھی اپنے ہاتھوں سے پھیلائی ہوئی مفلسی اور بدحالی دیکھ کر شرمندگی سے دوچار ہوگئے تو پھر لوگ زندگی کیلئے نہیں ترسیں گےبلکہ زندگی کی خوشحالیاں ان کے قدموں کی بلائیں لیں گی۔ پھر ایک سنہرے مستقبل کا سورج طلوع ہو گا۔ ایک نئی زندگی جگمگاہٹیں بکھیرے گی اور اس زندگی کا حسن عارضی یا لمحاتی نہیں ہو گا بلکہ اس سے دوام کے سرچشمے پھوٹیں گے۔ ترقی و خوشحالی کے دور کا آغاز ہو گا اس کیلئے۔

قصرِ مر مر کی بلندی سے نظر کیا آئے گا

خلق سے ملنا ہے تو پھر نیچے اترنا چاہئے

پھر ابھر آئیں یہاں تعمیر کی رعنائیاں

ان خوابوں میں کچھ ایسا رنگ بھرنا چاہئے۔

Check Also

Roos, Nuclear Doctrine Aur Teesri Aalmi Jang

By Muhammad Aamir Iqbal