Imran Khan Ki Hasrat
عمران خان کی حسرت
بعض اوقات ہمارے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ ہماری سوچ کی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بات بلکل واضح ہے کہ جو کچھ انسان ذہن میں سوچتا ہے اس کے منہ سے بھی وہی الفاظ جاری ہوتے ہیں اور پھر سیاست تو ایک علیحدہ چورن ہے جس کو جب چاہیں اقتدار کی خاطر بیچنا ہی ہوتا ہے۔
چند دنوں پہلے نیو ریاست مدینہ کے والی، سابق وزیراعظم عمران خان صاحب نے جوش خطابت میں چند مکروہ الفاظ کو اپنے ذہن سے نکال کر لوگوں کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا کہ یہی ہمارا وزیر اعظم جو پاکستان کے آزاد اور خودمختار ہونے کی بازگشت کرتا دکھائی دیتا ہے لیکن اقتدار کی ہوس میں لپٹ کر پاکستان پر ایٹم بم گروانے کی مذموم خواہش کا بھی اظہار کررہا ہے۔
اگر نیوٹرل ہو کر سوچا جائے تو ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کی اصل زمہ دار پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے جس نے چار سال میں عوام سے سب کچھ چھیننے کی بھرپور کوشش اور کاوش کی۔
پیٹرولیم مصنوعات ہو یا بجلی کی قیمتیں، کھانے پینے کی اشیاء ہوں یا تن ڈھانپنے کیلئے کپڑے، یہاں تک کہ آئی ایم ایف کے ساتھ خطرناک حد تک معاہدے کرکے خان صاحب نے ہماری آزادی کیلئے محنت کرتے ہوئے ہماری خودمختاری ہی خطرے میں ڈال دی۔ ملک میں مہنگائی کرنے کا وعدہ آئی ایم ایف سے کس نے کیا؟ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو بڑھانے کا وعدہ کس نے کیا؟ سٹیٹ بینک آف پاکستان کا سودا کس نے کیا؟ ٹیکسوں میں بے پناہ اضافہ کس نے کیا؟ بجلی کے بلوں میں بے پناہ ٹیکس کون لیتا رہا؟
جناب عمران خان صاحب سب کچھ جاننے کے باوجود ملک کو انتشار اور خون کی طرف کیوں لے جارہے ہیں؟ پوری تحریک انصاف اس بات کو خوب جانتی ہے کہ ہمارا سارا ملبہ موجودہ حکومت پر گر چکا ہے لیکن پھر بھی بھائی کو بھائی سے لڑوانے کیلئے اتنی محنت کیوں کررہی ہے؟ سبھی جانتے ہیں کہ مہنگائی، بےروزگاری، غربت و افلاس، صحافیوں کے حقوق کی پامالی، میڈیا نمائندوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کیلئے پاکستان تحریک انصاف کا ایک بہت بڑا ہاتھ اور کردار رہا۔ یہ لوگ جو چار سال تک اقتدار کے مزے لوٹتے رہے انہی کی حکومت میں ماسک مافیا، چینی مافیا، آٹا مافیا، ادویات مافیا، پیٹرول مافیا، کھاد مافیا نے بھرپور انداز کے ساتھ سر اٹھایا اور عوام کو نئے نئے انداز کے ساتھ لوٹا۔۔ یہ بحران انہی اقتدار پسند لوگوں کی پیداوار ہیں جن کو آج سابق حکومت ماننے سے انکار کررہی ہے۔
ملک پاکستان پتہ نہیں کب کا خوشحال ترین ملک بن جانا تھا اگر یہ ہمارے حکمران ملک سے مخلص ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی انگنت دولت کو بیرون ملک سے پاکستان میں لاکر قرضوں کے ناسور کو ختم کرنے کے بارے میں تھوڑا سا بھی سوچ سکتے۔ لیکن نہیں۔۔ قرضے کوئی اور لیتا ہے اور ٹیکس کوئی اور ادا کرتا ہے، محنت کوئی اور کرتا ہے اور بلیک منی کوئی اور بناتا ہے۔
عوام پاکستان جاننا چاہتی ہے کہ پانامہ پیپرز اور پینڈورا پیپرز میں جن"معتبر شخصیات" کا نام آیا کیا ان سے چوری کے پیسے لے کر ملک کے خزانے میں جمع کروائے گئے؟ نہیں ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔۔ اور نہ ہی ایسا ہوگا۔
مجھے وزیراعظم شہباز شریف سے لاکھ اختلاف ہیں کیونکہ جائز اختلاف رکھنا سب کا حق ہے لیکن ایک بات انہوں نے ٹھیک کہی تھی کہ BEGGERS CANNOT BE CHOOSERS۔
مطلب بھکاری اپنا فیصلہ خود نہیں کرسکتے۔۔
کاش! لوگ سمجھ سکیں کہ انہوں نے کہا کیا ہے۔ جب کوئی ملک کسی دوسرے ملک سے قرضے لینے جاتا ہے تو ان کو ان کی باتیں ماننی پڑتی ہیں، آپ اپنی مرضی سے فیصلے نہیں کرسکتے۔
اگر آپ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے جائیں تو انہوں نے اپنی مرضی کی شرائط لاگو کرنی ہیں۔ آپ اپنی مرضی سے پیٹرول کی قیمت تو کم کرنہیں سکتے۔ اس میں ملک کی آزادی اور خودمختاری کہاں رہ گئی؟
ملک کی آزادی کا سودا تو کردیا گیا ہے لیکن اب آپ انتشار کی جانب کیوں جارہے ہیں۔ سبھی واقف ہیں کہ خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا ہے جس کی آئین میں تعریف بڑی واضح انداز کے ساتھ درج ہے۔ لیکن پھر بھی آپ آزادی اور غلامی کی بازگشت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
خان صاحب۔ ہوش کے ناخن لینے کا وقت ہے۔ شہباز شریف کی بات کو سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ بھکاری اپنا فیصلہ خود نہیں کرسکتے۔ اپنا فیصلہ خود کرنے کیلئے محنت کرنا پڑتی ہے۔ فقط نعرے، دعوے، وعدے، تقریریں، جلسے، احتجاج، دھرنے، خونی مارچ، اور ملک پاکستان پر ایٹم بم گرانے کی حسرتیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔۔ کسی کا باپ بھی پاکستان کی طرف میلی نظر سے نہیں دیکھ سکتا جب تک ہم بھکاری پن سے نہیں نکل پاتے۔
ہمیں کوئی ملک نقصان نہیں پہنچا سکتا ہم خود ہی اس کی تباہی کے زمہ دار بن رہے ہیں۔ عوام پاکستان کو بھی اب سوچنا چاہیے اور فیصلہ کرنا چاہیے کہ ملک کے مفاد کیلئے مخلص کون ہے اور کون نہیں۔۔ انتشار اور لڑائی جھگڑے کون کروانا چاہتا ہے، ہمیں جان لینا چاہیے کہ اس دنیا میں جتنے بھی بڑے بڑے کرائمز ہوتے ہیں وہ سب بلیک منی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ سارے فساد کی جڑ یہ بلیک کا پیسہ ہے، سبھی ناجائز کاموں کی وجہ بھی یہی ہے۔
چور، لٹیرے، گورنمنٹ کو خریدنے والے بااثر کاروباری لوگ، بڑے بڑے کرپٹ سیاستدان، غنڈے اور بدمعاش، ان سب کا وجود ان سب کے پاس آنے والی وہ بےایمانی کی کمائی ہے، جو ان کو سبھی غریبوں کا خون چوسنے پر مجبور کرتی ہے۔ کسی امیر کے کالے دھن کا ایک بڑا حصہ اگر ملکی قرضہ اتارنے کیلئے وقف کر دیں گے تو اس ملک کا بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج امیر، امیر سے امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب، غریب سے غریب تر ہوتا جارہا ہے۔
گردشی قرضے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں لیکن کوئی سیاستدان ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ ان قرضوں کا پیسہ مہنگائی کر کے عوام سے چھینا جارہا ہے۔ امیر لوگوں کو مہنگائی کی پرواہ ہی نہیں۔ ان کے بینکوں میں پیسےجمع ہیں، مسئلہ تو ان غریبوں کو ہے جو بیمار ہوں یا تندرست، کام کریں گے تو پیسہ کما سکیں گے ورنہ بھوک سے بلک بلک کر اور بیماری سے تڑپ تڑپ کر مرجائیں گے۔
یہ باتیں سوچنے کی ہیں بلکہ ساتھ ساتھ غور کرنے کی بھی ہیں۔ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال ڈال کر اور مہنگائی کرکر کے اور دوسرے ملکوں سے قرضے لے لے کر ملکی قرضوں کو کسی صورت بھی اتارا نہیں جا سکتا اس صورت میں حالات مزید خراب ہونے کی صرف پیشنگوئی کی جاسکتی ہے۔۔ الزامات کی بھرمار ہی ہو سکتی ہے، جن میں کسی قسم کی کوئی صداقت نہیں۔
کاش۔۔ ہم معاشی طور پر آزاد اور خودمختار ملک بن سکتے بلکہ بننے کی حسرت کرسکتے، کوشش کرنا تو دور کی بات ہے۔۔ کاش۔۔ اے کاش۔