Sunday, 28 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sajid Ali Shmmas/
  4. Ilaqai Taasubat Aur Mulki Saalmiyat

Ilaqai Taasubat Aur Mulki Saalmiyat

علاقائی تعصّبات اور ملکی سالمیت

مسلمان خواہ کسی بھی خطے میں رہتا ہو اس کا دین ایک ہی ہے، ایک مسلمان کا نقطہ نظر وسیع ہونا چاہیے۔ اگر وہ خود محدود ہو کر رہ گیا تو کائنات کی رہنمائی کا فرض ادا نہیں کرسکے گا۔ پاکستان ایک نظریے کے تحت حاصل کیا گیا تھا اسے اسلام اور اسلامی اصولوں کے تحفظ کے لیے قائم کیا گیا کیونکہ ہم لوگ ہندوؤں کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے تھے کیونکہ ہمارا دین، تہذیب و تمدن جدا جدا تھا۔ اس لئے اس دین کے تحفظ، اس تہذیب کے نکھار اور اس تمدن کے تقدس کے لیے ہم نے جان، مال، اور اولاد کی قربانیاں دیں۔ گویا پاکستان کا قیام، اسلام کے لیے ہے اور اس کی بقاء بھی اسلام ہی کے لئے ہے اور اگر ہم اس کا تحفظ چاہتے ہیں تو اس کی تہہ میں بھی یہی مقصد کارفرما ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کا دین بلند و بالا ہو۔

نوجوان طبقے کو علم نہیں کہ پاکستان کو حاصل کرنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے تھے اسے تو بنا بنایا گھر مل گیا ہے۔ نسلِ نو نہیں جانتی کہ اس ملک کے قیام کے لیے کتنے لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیے۔ کتنے مسلمان اپنے گھروں سے نکلے یا نکالے گئے۔ کتنی عزتوں کی قربانی دینا پڑی۔ اس وطن عزیز کی بنیادوں میں لاکھوں مسلمانوں کے لہو کی سرخی بھی ہے۔ ہزاروں عصمتوں کے تقدس کی تڑپ بھی ہے اور آنسوؤں اور آہوں کی ایک دنیا بھی آباد ہے۔

یہ سب کچھ محض اس ملک کو دنیا کے نقشے پر ابھارنے کے لیے نہیں ہوا تھا بلکہ نظریے کو قائم و دائم رکھنے کیلئے ہوا تھا افسوس کی اس نظریے کی تب و تاب ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوگئی ہے اس کے نور سے ہمارے دل منور نہیں رہے نتیجہ معلوم کہ یہ ملک بھی شکست و ریخت اور ٹوٹ پھوٹ کی نظر ہو کر رہ گیا ہے اور ہمارے بڑوں نے اتحاد و آزادی کا جو خواب دیکھا تھا وہ روز بروز بکھرتا جا رہا ہے۔ جب پاکستان بنا تھا تو ایک پاکستان تھا اب ہر صوبے کے لوگ اپنے آپ کو پاکستان کا نہیں بلکہ اپنے اپنے صوبے کا فرد خیال کرتے ہیں یہ بات ہمیں زوال کی طرف لے جائے گی۔

علامہ محمد اقبالؒ پاکستان کے مصور ہیں، انہوں نے اس کی ایک خیالی تصویر پیش کی اور قائداعظمؒ اس کے بانی ہیں کہ انہوں نے اس خیالی تصویر میں حقیقت کا رنگ بھرا۔ دونوں رہنماؤں نے اسلام ہی کو اس ملک کی بقاء اور قیام کا ذریعہ قرار دیا۔ قائد اعظمؒ نے اپنی ہر تقریر میں تنظیم، اتحاد اور یقین کا جو سبق دیا اس کی کرنیں آفتاب رسالتﷺ ہی سے پھوٹتی اور نکلتی ہیں اور اسی تعلق خاطر سے ہم اپنی دنیا کو پورنور بنا سکتے ہیں۔ اگر ہمارا یہ تعلق باقی نہ رہا تو ہم تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر جائیں گے۔

دنیا کی کوئی قوم، اس وقت تک پھل پھول نہیں سکتی جب تک اس میں فکری وحدت نہ ہو اگر یہ وحدت ختم ہو جائے تو وہ قوم خزاں رسیدہ پتوں کی طرح ٹوٹتی، اڑٹی، گرتی اور بکھرتی نظر آئے گی۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ ہم مسلمانوں کے پاس اتحاد کا جو ذریعہ ہے وہ دنیا کی کسی بھی قوم کے پاس نہیں ہے وہ ذریعہ اسلام اور قرآن ہے۔ ہمارا دین بھی ایک ہے، ہمارا خدا بھی ایک ہے، ہمارے نبیﷺبھی ایک ہیں۔ ہمارا کعبہ بھی ایک ہے اور ہماری کتاب بھی ایک ہے۔

مگر افسوس کہ ہم ہر لحاظ سے مختلف خانوں میں بٹے ہوئے ہیں ہم نے زمین کی مٹی کو اہم بنا لیا ہے اور ہمارا رابطہ ملت سے ٹوٹ چکا ہے اور ہم نظریہ کی آفاقیت اور عالمگیریت کو بھی بھول گئے ہیں۔ ہمارے تعصّبات کی مختلف شکلیں ہیں۔ ہم نے علاقائی زبانوں کو اہم سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ قومی زبان اور علاقائی زبانوں میں ربط ضروری ہے۔ کیونکہ دونوں مل جل کر قائم رہتی اور نکھرتی ہیں اگر ان کو آپس میں لڑا دیا جائے تو یہ بات ملکی سالمیت کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں ہے۔

دوسری بات رنگ و خون کی ہے۔ ہم نسل اور ذات پات کے اس قدر پابند ہو گئے ہیں کہ اس محدود دنیا سے ہم باہر نہیں نکلتے۔ ہر علاقہ، خود کو ایک الگ خطہ سمجھ رہا ہے اور وہ لوگ جن کی وفاداریاں اس ملک سے باہر ہیں جو اس ملک کی بقاء کے دشمن ہیں وہ ذات، پات، رنگ و نسل اور زبان و لباس کے اس امتیاز کو اس قدر ہوا دے رہے ہیں کہ روزبروز وطن عزیز کی فضا انس و محبت کی خوشبو سے خالی ہوتی جارہی ہے اور کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ پورا گلستان شعلوں کی زد میں ہے۔

رسول پاکﷺ نے مختلف نسلوں، ملتوں، قوموں، اور زبانوں کو ایک رسی میں پرو دیا۔ ایک مرکز کے ساتھ رشتے کو استوار کیا اور بار بار یہ بتایا کہ کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر، کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ اللہ کے نزدیک اگر کسی کو کوئی اہمیت ہے تو پرہیزگار کو ہے۔ آج ہم ان باتوں سے کوسوں دور جاچکے ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ ہم روزبروز بکھرتے جا رہے ہیں، اور ذلت و رسوائی ہمارا مقدر بنتی جارہی ہے۔

ایک پاکستان ہی نہیں، دنیا کے نقشے میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں مختلف فرقے ہیں، رنگ کے لحاظ سے، زبان کے اعتبار سے، لباس کے نقطہ نظر سے۔ مگر اس ظاہری تفریق کے باوجود وہ ملک صدیوں سے ایک ہیں، متحد ہیں، اور ہم جیسے نظریاتی انسانوں کیلئے اتحاد کی مثال بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ ہم ایک دین واحد کے پرستار ہوتے ہوئے بھی دنیا کے سامنے عبرت کا نقش ہیں حالانکہ ہمارے پاس اتحاد کا جو ذریعہ ہے وہ کسی دوسری قوم یا کسی دوسرے ملک کے پاس نہیں ہے۔

ضرورت صرف بھولے ہوئے سبق کو یاد کرنے کی ہے۔ اسلام کو اپنی عملی زندگی میں لانے کی ہے۔ صرف باتوں، دعاؤں اور آنسوؤں سے قوموں کی تقدیریں نہیں بدلا کرتیں اگر ہم اسلام کے آفاقی نظریے کو چھوڑ کر زبان کے جھگڑے ابھارتے رہے۔ نسل و خون کے امتیازات کو ہوا دیتے رہے۔ مٹی کے بےجان ذروں کو اپنی زندگی بناتے رہے اور ڈرامائی انداز میں اشک بہاتے رہے تو ہم یقیناً حرف غلط کی طرح مٹ جائیں گے اور شاید ہم ایک داستان بھی نہ رہیں۔

Check Also

Nineties Ke Ashiq

By Khateeb Ahmad