Behtar Koi Bhi Ho Sakta Hai, Lekin
بہتر کوئی بھی ہو سکتا ہے لیکن۔۔
کافی دنوں سے صدارتی نظام کی خوبیاں اور پارلیمانی نظام کی خامیاں بتانے کیلئے تگ و دو کی جارہی ہےکہ ملک میں تمام مسائل کا حل صرف اور صرف صدارتی نظام ہے۔ چند معزز کالم نگاروں نے صدارتی نظامِ حکومت کی خوبیاں بھی بتائیں اور خامیاں بھی، لیکن آج میں اپنے معزز قارئین کو صدارتی نظام کی خوبیاں یا خامیاں نہیں بتاؤں گا بلکہ میں اپنی تحریر سے صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام میں فرق واضح کرنے کی کوشش کروں گا۔
بعض لوگ پارلیمانی نظام اور صدارتی نظام کی بازگشت سنتے تو ہیں لیکن ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ یہ دونوں نظام آخر ہیں کیا؟ اسی لیے آج میں نے اس کے بارے تھوڑا سا لکھنے کی جسارت کی۔ مجھے امید ہے آپ خود ہی فیصلہ کر لیں گے کہ ملک میں کون سا نظام نافذ ہونا چاہئے لیکن میری نظر میں نظام بہتر کوئی بھی ہو سکتا ہے اگر اس کو بہتر کرنے کے بارے میں کوئی ٹھیک طرح سے سوچ سکے۔
صدارتی طرز حکومت میں انتظامیہ کے حقیقی اختیارات فرد واحد کو حاصل ہوتے ہیں۔ یہ نظامِ حکومت تقسیم اختیارات کے اصول پر کام کرتا ہے۔ اس میں مقننہ اور انتظامیہ دونوں علیحدہ علیحدہ اختیارات کے مالک ہوتے ہیں۔ اور انتظامیہ اپنی کاروائیوں کیلئے مقننہ کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتی، نہ ہی اس کے عہدہ کی معیاد اس کی رائے پر منحصر ہوتی ہے۔ ریاست کا سربراہ یعنی صدر پارلیمانی طرز حکومت کے برعکس حقیقی اختیارات کا مالک ہوتا ہے۔ اور وہ تمام اختیارات جو آئین نے اسے تفویض کیے ہیں وہ خود استعمال کرتاہے۔ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کیلئے وزراء کا تقرر کرتا ہے، جو انتظامی امور میں اس کی معاونت کرتے ہیں۔
صدر اور اس کے وزراء کا مقننہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وزراء صرف صدر کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ صدر نہ صرف ریاست کا سربراہ ہوتا ہے بلکہ انتظامیہ کا بھی قائد ہوتا ہے۔ حکومت کی پالیسی دراصل صدر کی پالیسی ہوتی ہے۔ وزراء صرف صدر کے مشیروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ صدر ان کے مشورے کا پابند نہیں ہوتا اور یہ اس کی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کسی معاملے میں اپنے مشیروں سے مشورہ لے یا نہ لے اور اس کے مطابق عمل کرے یا نہ کرے۔ اس نظام حکومت کو بے لچک بھی کہا جاسکتا ہے۔ اگر صدر نااہل ہو اور ہنگامی حالات سے عہدہ برآء ہونے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اسے علیحدہ کر کے کسی اہل اور قابل شخص کو مقرر نہیں کیا جاسکتا۔ وہ آئین کی رو سے مقررہ مدت تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا۔
اس نظام حکومت میں وزراء کا قانون سازی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ چونکہ وہ صرف صدر کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔ اس لیے انہیں مقننہ کے اعتماد کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ مقننہ کے پاس انتظامیہ کو برخاست کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ اس طرح انتظامیہ اور مقننہ کے فرائض میں مکمل علحیدگی پائی جاتی ہے اور ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
پارلیمانی طرز حکومت کو وزارتی یا ذمہ دار حکومت بھی کہا جاتا ہے۔ پارلیمانی حکومت تو اسے اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں حقیقی انتظامیہ کو پارلیمنٹ تخلیق کرتی ہے۔ اور چونکہ یہ پارلیمنٹ کے سامنے ذمہ دار ہوتی ہے اس لئے اسے ذمہ دار حکومت کا نام دیا جاتا ہے۔ آپ کو ایک بات ذہن نشین کراتا چلوں کہ پارلیمانی طرز حکومت میں ریاست کے سربراہ کی حیثیت برائے نام ہوتی ہے۔ یعنی وہ (صدر) رسمی سربراہ ہوتا ہے۔ اگرچہ قانونی طور پر حکومت کا کاروبار اسی کے نام سے سر انجام پاتا ہے لیکن درحقیقت وہ محض ظاہری شان کا مالک ہوتا ہے۔ حقیقی اختیارات اس کے پاس نہیں ہوتے۔ انتظامیہ کے حقیقی اختیارات کابینہ کے پاس ہوتے ہیں جس کے قائد کو وزیراعظم کہا جاتا ہے۔
پارلیمانی نظام کو ذمہ دار حکومت کہنا بلکل درست ہے۔ یہ واحد ایسی طرز حکومت ہے جس میں حکمران طبقے کا موثر طریقے سے محاسبہ کیا جاسکتا ہے۔ اور وہ اپنی سرگرمیوں کیلئے پارلیمنٹ کے سامنے ذمہ دار ہوتی ہے۔ مجلس وزراء یا انتظامیہ عوام کے نمائندوں کی خواہشات اور مطالبات کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ وزراء عوام کے نمائندے ہوتے ہیں اور اگر وہ عوام کی خواہشات کا احترام نہ کریں تو عوام انہیں دوبارہ منتخب نہیں کریں گے۔ اور مقننہ ان کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کر کے انہیں اقتدار سے محروم کر سکتی ہے۔
ان تمام باتوں سے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کون سا طرز حکومت بہتر ہے۔ یہ دراصل ہر ملک کے مخصوص حالات پر منحصر ہوتا ہے۔ اس بات کو زیادہ واضح کرنے کی ضرورت نہیں کہ کوئی ایک طرزِ حکومت تمام افراد یا تمام حالات اور انسانی معاشرے کے تمام حصوں کیلئے موزوں نہیں ہوتا۔ اس امر کا فیصلہ کرتے وقت کہ کسی خاص معاشرے کیلئے بہترین حکومت کون سی ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ معاشرے کتنا ترقی یافتہ ہے۔ لوگوں کی سیاسی صلاحیت، سیاسی بصیرت اور ذہانت کتنی ہے۔ ان کی روایات اور نسلی خصوصیات کیا ہیں۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت سے عوامل کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ ہم وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایک طرزِ حکومت اگر ایک ملک میں کامیابی سے رائج ہے تو وہ دوسرے ملک کیلئے بھی موزوں ثابت ہو گا۔ اس کا انحصار ہر ملک کے خاص حالات پر ہوتا ہے۔ مثلاً وزارتی طرز حکومت برطانیہ میں نہایت کامیابی سے چل رہا ہے لیکن جب اسی نظام کو پاکستان میں رائج کیا گیا تو یہ اس ملک کیلئے مفید ثابت نہ ہوا اور اس کی جگہ صدارتی نظام نے لے لی۔ اب پھر پارلیمانی نظام نافذ ہے۔
پارلیمانی نظام بنیادی طور پر ناقص نہیں۔ لیکن اس کی کامیابی کیلئے بعض شرائط کا ہونا ضروری ہے۔ مثلاً لوگ سیاسی طور پر باشعور ہوں۔ ملک میں مضبوط اور بیدار رائے عامہ موجود ہو جو نمائندوں کا مؤثر طریقے سے محاسبہ کر سکے۔ سیاسی جماعتیں ملکی فلاح و بہبود کا واضح پروگرام رکھتی ہوں اور ٹھوس اصولوں پر قائم کی گئی ہوں اور یہ سیاسی معاملات میں رواداری سے کام لیتی ہوں۔ اگر یہ حالات موجود ہوں تو پارلیمانی نظام کو مفید بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بصورت دیگر اس کی کامیابی مشکوک ہو جاتی ہے۔ یہی حال صدارتی نظام کا ہے۔
امریکہ میں یہ بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ کسی دوسرے ملک میں اسے جوں کا توں اپنا لیا جائے اور اس سے وہی نتائج برآمد ہوں جو امریکہ میں برآمد ہورہے ہیں۔ کسی نظام کی کامیابی کا دارومدار دراصل عوام کے مزاج٬سیاسی شعور اور ملک کے معاشی اور معاشرتی حالات پر ہوتا ہے۔ نظام غلط نہیں ہوتا نااہل لوگ اسے غلط کردیتے ہیں۔ مثلاً پاکستان کے موجودہ پارلیمانی نظام حکومت میں جو لوگ اب وزارتوں کے اہم منصب پر فائز ہیں اور ان سے ملکی انتظامی امور ٹھیک طرح سےسرانجام نہیں ہو پا رہے تو اگر کل یہی لوگ صدارتی نظام میں صدر کے مشیر بن جائیں تو یہ کیا کر لیں گے؟
بات نظام کی نہیں، لوگوں کے رویوں، ان کی اہلیت اور قابلیت کی ہے، جس کو جانچنے کی سخت ضرورت ہے۔ نظام کوئی بھی ہو نااہل لوگ ہی اس نظام کو بدنام اور نااہل کردیتے ہیں جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔