Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Ali Shmmas
  4. Alam e Arwah Se Jinnah Ka Dard Bhara Khat

Alam e Arwah Se Jinnah Ka Dard Bhara Khat

عالمِ ارواح سے جناحؒ کا درد بھرا خط

پچیس دسمبر کو حسبِ روایت، حسبِ دستور ہمارے قائد کا یوم پیدائش جوش و جذبے کے ساتھ منایا گیا۔ معمول کے مطابق تقریبات کا انعقاد کیا گیا لیکن اس بار پچھلے سالوں کی نسبت کورونا کی وجہ سے تقریبات کم ہوئیں۔ اس موقع پر عالم ارواح سے قائد ملت محمد علی جناحؒ کا ایک درد بھرا خط آیا ہے جو بدقسمتی سے ہمارے لیے ہے۔ جسے آپ کی خدمت میں گوش گزار کرنا میں اپنے لیے فرض سمجھتا ہوں ،معزز قارئین قائد ملت لکھتے ہیں میرے عزیز ہم وطنو اسلام علیکم، پچیس دسمبر کو آپ نے مجھے میری پیدائش کے دن کی وجہ سے یاد کرنے کی زحمت اٹھائی، اس کا بہت شکریہ۔

کیونکہ مجھے یاد کرنا آپ کے لیے ضروری نہیں، بلکہ آپ کی مجبوری ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جس ملک میں آپ آزادی کے ساتھ سانس لے رہے ہیں اس ملک کا بانی میں خود ہوں۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب انگریز کا ظلم و ستم برداشت کرتے اور ہندوؤں کی ناپاک سازشیں سہتے مسلمانوں نے ایک آزاد سر زمیں کے قیام کی جانب پہلا قدم اٹھایا،یہ وہ گھڑی تھی جب منٹو پارک لاہور میں مسلمانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے میری بات پر لبیک کہتے اور میرے قدم کے ساتھ قدم ملاتے دو قومی نظریے سے اپنی قلبی اور جذباتی وابستگی کا اظہار اور اعلان کر دیا تھااور درحقیقت اسی دن پاکستان معرض وجود میں آ گیا تھا۔

میرے عزیز ہم وطنو،میرے اس خط کا مقصد آپ کو اس موقع پر اپنی محنت اور ان تاریخی دنوں کے قصے سنانا نہیں اور نہ ہی میں اپنی کسی غرض سے آپ کو زحمت دینے کا خواہش مند ہوں، کیونکہ اب میں وہاں ہوں، جہاں اس دنیا سے چلے جانے والوں کی زندہ لوگوں کی نظر میں کوئی حیثیت اور اہمیت باقی نہیں رہ جاتی، عزیز سے عزیز اور قریب سے قریب سب بھول جاتے ہیں۔ البتہ میں اس خط کی وساطت سے کچھ نکات کی وضاحت ضرور کرنا چاہتا ہوں اور اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہوں۔

عینی شاہد ہے وہ ذات اقدس جس کے قبضہ قدرت میں پوری کائنات میں رہنے والوں کی زندگی اور موت ہے۔ جس کے فیصلوں کے سامنے ہمارے کمزور ارادے ریت کی دیوار سے زیادہ کوئی اہمیت، حیثیت، اور وقعت نہیں رکھتے،میں نے صبر کیا، برداشت کیا اس عزیز و جان مملکت کو دو لخت ہوتے دیکھ کر بھی، جس کے حصول کیلئے لاکھوں قیمتی انسانی جانیں قربان ہو گئیں،میں پھر بھی خاموش رہا جب ایک اقتدار پرست جرنیل میری پیاری بہن کی بد ترین کردار کشی کرتا رہا۔ جسے کبھی میری ہی قوم نے مادرِ ملت کا خطاب دیا تھا لیکن افسوس صد افسوس وہی قوم اپنی ماں کو گالیاں دیے جانے پر بھی کانوں میں انگلیاں ڈالے بیٹھی رہی۔

میں نے برداشت کیا اپنے ہی مذہب، اپنے ہی مسلک پر وہ بدترین تنقید، جس کا اس قوم کی اجتماعی اور عملی زندگی سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہ تھا۔ کیونکہ میں آپ کا محسن تھا۔ اس سے کیا فرق پڑتا تھا کہ میں شیعہ تھا یا سنی؟ مگر تھا تو میں تمھارا محسن ہی اور محسنوں کی تو اور کوئی شناخت نہیں ہوتی سوائے ان کے احسان کےمیں سنتا رہا قیام پاکستان کی وہ عظیم ترین اساس، دو قومی نظریے کے خلاف وہ زہریلا پراپیگنڈا جس نے ہماری ارواح تک کو زخمی کر ڈالا میں نے برداشت کیں وہ بیکار اور فضول باتیں جس میں فریقین مجھے سیکولر اور لبرل قرار دینے کیلئے سر دھڑ کی بازیاں لگاتے رہے،مگر اب ایسا لگتا ہے جیسے خاموشی تمھارے مرض کا علاج نہیں۔

مجھے ایسا لگتا ہے جیسے تم اس غفلت کے ہاتھوں اپنا سب کچھ گنوانے کے در پہ ہو، مگر یاد رکھنا کہ تمھارے سب کچھ میں میرا بہت کچھ شامل ہے۔ آپ بظاہر خود کچھ بھی نہ تھے، اگر اللہ پاک تمھیں آزاد اسلامی مملکت کا باعزت شہری پیدا نہ کرتاتمھیں کیسے ملتی وہ آزادی جو تمھیں آج بہت ہی کم اور فضول محسوس ہو رہی ہے، کون سے اچھے اعمال کیے تھے آپ نے کہ آج آپ آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔ کیا قصور تھا تمھارے آباؤاجداد کا، جنہوں نے اپنا حال تمھارے فضول مستقبل کیلئے قربان کردیا۔ ان خوابوں میں کون سی کمی تھی تابناک مستقبل کی، جنہیں گردش ایام نے انہی آنکھوں میں دفن کر ڈالا جو انہیں زندہ رکھے ہوئی تھیں۔ تم کتنے خوش نصیب ہو کہ تمھیں کسی بھی قربانی کے بغیر آزاد وطن نصیب ہوا۔

اور وہ لوگ کتنے مخلص تھے جو محض ملک و ملت کی آبرو، اس کی ناموس، اور اس کے تحفظ کیلئے خوشی خوشی اس جہاں سے گزر گئے۔یہ وہ لوگ تھے جنہیں آج غیر عملیت پسندی اور جذباتیت کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ وہ بھی ان کی جانب سے جن کی زندگیاں خود سر سے لے کر پاؤں تک صرف اور صرف ایک کاروبار ہیں۔ جو اپنی ناپاک زندگی کو صرف سود و زیاں کے ترازو میں تولنے کے عادی ہیں۔ مگر وہ نہیں جانتے کہ غمگین آنکھوں کو نشان منزل کا پتہ دینا کتنا پر کیف عمل ہے۔آپ لوگوں نے مجھے بڑی اذیت دی بڑی تکلیف دی اور انہوں نے بھی جنہیں تم اپنا اعتماد بخشتے رہے۔

کبھی میرے برطانوی پاسپورٹ پر مباحثے کیے تو کبھی ایسا کرنے والوں کو وہ درجہ دے ڈالا جو بحثیت بانی پاکستان صرف اور صرف میرا حق تھا، یعنی قوم کے روحانی باپ کا درجہ میں اپنی زندگی میں، چاہے وہ سیاسی ہو، پیشہ وارانہ ہو یا پھر نجی کئی بار مسائل و شکست سے دوچار ہوا،کئی بار تو میں ٹوٹ سا گیا کبھی نہ جڑنے کیلئے، مگر جو تکلیف مجھے تمھاری مسلسل بے حسی، اور لاپرواہی نے دی تصّور سے بالاتر ہے۔ہم نے پاکستان کا مطالبہ اس لیے کیا تھا کہ ایک ایسی اسلامی ریاست بنائی جائے جہاں پر مسلمان آزادی کے ساتھ، مغربی تہذیب کی پیروی نہ کرتے ہوئے اسلامی طرز کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ لیکن آپ نے مغربی تہذیب کی اس طرح پیروی کی کہ آج کی مسلمان عورت سر پر دوپٹہ لینے پر اپنی توہین سمجھتی ہے۔

میں نے اپنے خطابات میں کئی بار اس بات پر زور دیا کہ آپ صوبائی تعصب کا شکار نہ ہوں، لیکن آپ نے میری کوئی بات بھی نہ ماننے کی قسم کھاتے ہوئے مذہبی اور صوبائی تعصب پر زور دیا۔آپ نے یہ نہ سوچا کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے اور سب سے بڑھ کر تحریک آزادی پاکستان کے شہداء نے اپنی ہڈیوں کا گودا تک گلا دیا، اپنے لہو کا آخری قطرہ تک بھی اس چمن کی تعمیر پر ہنستے ہنستے وار دیا۔ تا کہ آپ جنہیں ہم نے کبھی دیکھا تک نہیں وہ زندگی گزار سکیں جو ہمیں کبھی نصیب نہ ہوئی۔میرے وطن کے جانبازو۔

یہ وقت کی آخری مہلت ہے زندگی کا دیا ہوا آخری موقع ہے۔ اب بھی اگر نہ اٹھے تو مٹا دیے جاؤ گے، اب بھی اگر نہ بدلے تو بدل دیے جاؤ گے،اٹھو کم از کم اس استحصال کا راستہ روکنے کیلئے جو تمھیں چوہتر سالوں سے آگے بڑھنے نہیں دے رہا، اٹھو ان مفادات کے غلاموں کے خلاف جنہوں نے تم سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ ایک بار آواز تو اٹھاؤ اس ظلم، جبر، اور ناانصافی کے خلاف جہاں ایک لمبے عرصے سے جمہوریت کے نام پر موروثیت کا کھیل جاری ہے،میں چاہتا ہوں کہ جمہوریت پاکستان کا مقدر ہونی چاہئے، لیکن وہ جمہوریت جو جمہور سے ہو جمہور کیلئے ہو

اٹھو میرے خوابوں کو زندگی دینے کیلئےاٹھو، ایک ایسے وطن کی تکمیل کیلئے، جہاں کسی غریب کا استحصال نہ ہو۔ جہاں کسی کو کوڑے کے ڈھیر سے کھانا تلاش نہ کرنا پڑے۔ جہاں قانون کی نظر میں سب برابر ہوں۔ جہاں صاف پانی کی سہولیات بھی ہوں اور جائز کاروبار کی بھی۔ جہاں کھیتوں سے معصوم کلیاں نہ ملیں، جہاں عوام کو علاج معالجے کی وہی سہولیات حاصل ہوں جو کسی خاص کو حاصل ہیں۔ اٹھو، اگر اب بھی نہ اٹھے تو وقت کی آندھی تم سے اٹھنے کی طاقت بھی چھین لے گی۔في أمان اللهْ "محمد علی جناح"معزز قارئین۔

عالم ارواح سے آئے ہوئے جناحؒ کے اس خط سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا قائد ہم سے بہت ناراض ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم ان کی بات مانتے ہوئے ملک کی سالمیت اور بقا کیلئے کام کریں۔ پھر ہی ان کو ہماری تقریبات کی خوشی ہو گی وگرنہ ،نہیں کبھی بھی نہیں، پھر ہی ہمارے یوم پاکستان، یوم آزادی، یوم جناح اور یوم اقبال کے دن منانے کا مقصد پورا ہو گا، اگر ہم ان کی کہی ہوئی کسی بھی بات پر عمل کریں تو تب ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم کامیابی سے ہمکنار ہو سکیں۔

Check Also

Smog Ki Wajoohat Kya Hain?

By Aaghar Nadeem Sahar