Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sajid Ali Shmmas/
  4. Agar

Agar

اگر

ملکی حالات اس وقت سنگین سے غمگین ہوتے جا رہے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، غربت و افلاس اور اس سب سے بھی بڑھ کر سڑکوں پر کھیلی جانے والی خون کی ہولی، ملکی نام نہاد ترقی کو پاتال کی جانب موڑنے کی کوشش کر رہی ہے اور ہمیں اب اس جگہ پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے جہاں سے ہم شاید کبھی بھی واپس پلٹ کر نہ آ سکیں۔

فیس بک، ٹویٹر، وٹس ایپ گروپس اور دیگر سوشل میڈیا نیٹ ورک پر اس طرح زہر اگلا جا رہا ہے جیسے ہر کسی نے ماہر معیشت، یا صحافت کا کورس کر رکھا ہے، مسائل کو حل کرنے کی بجائے دشنام طرازی کی تمام حدود و قیود کو پار کرنے کے بعد ہم پھر بھی تلاش منزل ہیں۔ ریاست مدینہ کے دعوے دار اپنی اصلیت سب کے سامنے عیاں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ موجودہ طرز معاشرت اسلام کے اصولوں کے خلاف ایک بغاوت ہے اور اس کی موجودگی میں ریاست مدینہ کا تصور تو درکنار فقط ریاست پاکستان کا تصور نا ممکن ہے، باتوں سے ریاست مدینہ کی تشکیل نہیں ہو جاتی، صرف خواب دیکھنے سے منزل تک نہیں پہنچا جا سکتا، خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے تھوڑا اٹھنا پڑتا ہے۔ دعوے ہمارے ریاست مدینہ کے ہوں اور خواہش ریاست پاکستان پر فورس کے ساتھ حملہ کرنے کی ہو تو اس سے ذہن کی اصلیت سب کے سامنے خود بخود عیاں ہو جاتی ہے۔

سبھی اس بات سے واقف ہیں کہ ملک پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری بلندیوں کو چھو رہی ہے، بیرونی قرضوں میں بے پناہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ملک کنگال ہونے کے بالکل قریب ہے، یہ اب مزید کسی مارچ، دھرنے اور افراتفری کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پچھلی حکومتوں سے اسّی فیصد زیادہ قرض لینے والے آج ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی اور بے روزگاری کی ذمہ دار موجودہ حکومت ہے۔ سابق وزیر داخلہ صاحب رقم طراز ہیں کہ شکر ہے ہماری ناکامی کا سارا ملبہ موجودہ حکومت پر گر گیا۔

یہ کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ وہ بھی جانتے ہیں اس قدر مہنگائی کے ذمہ دار وہی ہیں لیکن پھر بھی عوام کو احتجاج اور دھرنے کے لیے اکسا رہے ہیں۔ اگر فرض کیجیے کہ موجودہ حکومت ختم ہو جائے اور خان صاحب پھر برسرِ اقتدار آ جائیں تو ان کے پاس مسائل کے حل کیلئے کیا پالیسی ہو گی؟ میثاق معیشت کرنے کو تو وہ راضی نہیں، ساڑھے تین سال ملک کا جو حال ہوا وہ سب کے سامنے عیاں ہے، ساڑھے تین سال تُو چور اور تُو ڈاکو کے گانے سنا سنا کر پوری قوم کو بور کیے رکھا۔

اگر پالیسی ہی نہیں ہے تو پھر آپ لوگوں کا کندھا ایک بار پھر استعمال کر کے حکومت میں کیوں آنا چاہتے ہیں؟ میں نے اپنے پچھلے آرٹیکل میں لکھا تھا کہ کسی حکومت کو بھی آسانی کے ساتھ اور بلیک میلنگ کے بغیر کام کرنے نہیں دیا جاتا، ملکی حالات اس طرح بنا دیے جاتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے آج ہی مارشل لاء نافذ کر دیا جائے گا لیکن پھر بھی اللہ پاک ہمیں بچا لیتا ہے۔ اس وقت ملکی حالات جس طرح ہو چکے ہیں ان کو ٹھیک کرنا فرد واحد کا کام نہیں۔

اگر تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر مسائل کے حل کیلئے سوچیں تو شاید مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف ورلڈ کپ جیتا جا سکے۔ ہر پارٹی میں ارسطو، بقراط، اور افلاطون موجود ہیں اگر یہی مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکال لیں تو شاید عوام پاکستان کو بھی کوئی سکون میسر آ سکے۔ لیکن یہاں پر ہر کوئی فرد واحد کی طرح حکومت کرنا چاہتا ہے، حکومت میں آنے کے بعد تمام دعوے اور پالیسیاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں، اور عوام پاکستان مری کی مری رہ جاتی ہے۔

حکومت میں آنے سے پہلے ہر کسی کو مہنگائی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ لگتی ہے لیکن حکومت میں آنے کے بعد عالمی مسئلہ لگنے لگتی ہے۔ حکومت میں آنے سے پہلے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ملک میں بہت زیادہ محسوس ہوتی ہیں لیکن حکومت میں آنے کے بعد وہی قیمتیں پوری دنیا میں سب سے کم دکھائی دینے لگتی ہیں۔ حکومت میں آنے سے پہلے بیرونی قوتوں کی غلامی پسند نہیں ہوتی لیکن حکومت میں آنے کے بعد آئی ایم ایف کے سامنے لوگوں کے احساسات و جذبات اور مفادات کا سودا کرنے کیلئے سر دھڑ کی بازیاں لگا دی جاتی ہیں۔

میں اب مزید کیا لکھوں، عوام پاکستان کو سمجھنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جب کوئی، جب چاہے ہمیں استعمال کرنے کیلئے چوکس رہتا ہے لیکن ہم پھر بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہماری غلط فہمی کا عالم یہ ہے کہ سٹیج پر کھڑا ہونے والے ہر شخص کو ہم اپنا قائد، اپنا رہنما سمجھ لیتے ہیں لیکن ایسا بالکل نہیں ہوتا۔

فقط نعرے، دعوے، وعدے، اور تقریریں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، اپنی قوم کا قائد بننا بہت مشکل ہے۔ قائد بننے کیلئے اپنے دامن کو آرائشوں سے بچانا پڑتا ہے، قومی اور ملی روح کو بیدار کر کے اصلاح کا بیڑا اٹھانا پڑتا ہے۔ تن، من، دھن لٹانا پڑتا ہے، اپنی قوم کو جگانا پڑتا ہے، وہ نہ مخالف قوتوں کے سامنے جھکتا ہے اور نہ بکتا ہے، پھر ہی وہ اپنی قوم کا قائد اور مستقبل کا رہنما کہلانے کا حقدار بن سکتا ہے۔

Check Also

Taiwan

By Toqeer Bhumla