Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. The Wall Street Journal Ka Faisla

The Wall Street Journal Ka Faisla

وال اسٹریٹ جرنل کا فیصلہ

آج کل پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا ہر طرف اس خبر کے چرچے ہیں۔ اس موضوع پر عام عوام کی حیثیت سے بحث کرنے یا اپنی رائے دینے سی پہلے آپ کو دی وال اسٹریٹ جرنل کے متعلق کچھ بنیادی معلومات دینا چاہتی ہوں۔

8 جولائی 1889 کو چارلس ڈاؤ، ایڈورڈ جونز اور چارلس برگ سٹریسر کی جانب سے اس اخبار کی بنیاد رکھی گئی۔ دی وال اسٹریٹ جرنل ڈاؤ جونز اینڈ کمپنی کی ملکیت ہے اور 1889 سے لے کر اب تک مسلسل شائع ہو رہا ہے۔ اس اخبار نے 33 مرتبہ صحافت کا سب سی اعلٰی اعزاز (Pulitzer Prizes) پولٹزر انعام جیتا ہے۔

2003 کے مطابق دی وال اسٹریٹ جرنل امریکا کا اشاعت کے لحاظ سے دوسرا بڑا اخبار ہے۔ پہلے نمبر پر (یو ایس اے ٹوڈے) ہے۔ 2007 کے مطابق اس کی پرنٹ سرکولیشن 20 لاکھ سے زیادہ ہے۔ 2022 تک اس کے 3 ملین ڈیجیٹل صارفین تھے جو اب تک یقینًا بڑھ چکے ہو گے۔ یہ اخبار لگژری نیوز اور لائف اسٹائل میگزین (WSJ) شائع کرتا ہے۔ جو ابتداء میں سہ ماہی کے طور پر شروع کیا گیا تھا لیکن 2014 میں اسے 12 شماروں تک بڑھا دیا گیا۔ ایک (Online Version) 1995 میں شروع کیا گیا تھا جو ابتداء میں صرف سبسکرائبرز کے لیے قابل رسائی تھا۔ یہ ایشیائی اور یورپی شمارے بھی جاری کرتا ہے۔ دی وال اسٹریٹ جرنل کا سب سے بڑا حریف فنانشل ٹائمز ہے جو برطانیہ سے شائع ہوتا ہے۔

درج بالا تمام باتیں اخبار کے مستند ساکھ کا اظہار کرتی ہے اور اگر اس اخبار نے اپنے سروے میں یا جائزے میں عمران خان کے متعلق اس بات کا اظہار کیا ہے تو ہم اسے نظر انداز ہرگز نہیں کر سکتے۔

اندازہ کریں، ایک کھلاڑی 22 سال کی جدوجہد کا پرچار کرتا رہا، تمام سیاستدانوں کو چور اور کرپٹ کہتا رہا، معاشرے کا اخلاق تباہ کرکے رکھ دیا، نوجوانوں کو گمراہ کر دیا، فوج جیسے اہم ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی ناپاک جسارت کی، معاشرے کو تقسیم کردیا، معاشرے میں شرم و لحاظ کے پردے چاک کر دیے، عوام کا معیار زندگی گرا کر انھیں لنگر خانوں پر لگا دیا، اسے ایک ایٹمی طاقت کے حامل ملک کے سب سے مضبوط عہدے یعنی وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھایا گیا اور اس ملک کو پلیٹ میں رکھ کر اس کے آگے پیش کر دیا گیا، اسے ایک مستند اخبار ناکام آئیڈیاز کا حامل شخص قرار دے رہا ہے۔

عمران خان جو کہ خود کو لیڈر سمجھتا ہے اسے ملکی قیادت کے لیے ناموزوں قرار دیا جا رہا ہے۔ دراصل عمران خان صرف جڑانوالہ اور یوحنا آباد جیسے ہجوم کی قیادت کر سکتے ہیں۔ یہ لوگوں کو انتشار اور توڑ پھوڑ پر اکسا سکتے ہیں اور جب ان کے پیروکار، ان کی رہنمائی میں ملک کو جلانے، شہداء کی بے حرمتی کرنے کے سنگین جرائم میں گرفتار ہو کر جیلوں میں پہنچ جاتے ہیں تو یہ ان سے اظہار لاتعلقی کرتے ہیں۔ عمران خان نے صرف عوام کا نہیں خواص کا بھی نقصان کیا۔

شاہ محمود قریشی، پرویز الہٰی جیسے زیرک سیاستدانوں کی سیاست کو ایسا ہٹ کیا کہ ان کی سیاست کو باؤنڈری لائن سے ہی باہر پھینک دیا اور وہ اپنے سروں پر ذلت کا ٹوکرا دھرے دھکے کھاتے پھر رہے ہے۔ ایک سیاستدان اپنی عزت کے بارے میں حساس ہوتا ہے۔ مگر عمران خان نے ان سیاستدانوں کی عزت کو پیروں تلے روند دیا۔

بعض اوقات مجھے لگتا ہے عمران خان ایک عام انسان نہیں ہے۔ اگر اس کی اخلاقی تربیت ہوئی ہوتی تو شاید اس کے اندر مثبت قوتوں کے خزانے موجود ہوتے۔ وہ مثبت قوت جو قوم کی زندگی بدل دیتی ہیں۔ مگر عمران خان منفی قوتوں سے بھرا ایک ایسا بم جس نے پھٹ کر اس ملک کی تباہی میں اپنا حصہ ڈالا اور اب جب یہ ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر دوبارہ دوڑنے کی تیاری میں ہے، عمران خان کے پیروکار پھر سے بلوں میں سے نکل رہے ہیں تاکہ دوبارہ سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے تازہ دم ہو کر حملہ کر سکیں۔

عمران خان اور اس کے پیروکار اپنے حملے سے پاکستان کو تو شاید اب نقصان نہ پہنچا سکیں۔ مگر اس پسی ہوئی، کچلی ہوئی، بےبس عوام میں شاید مزید پسنے اور کچلے جانے کی ہمت نہیں ہے۔ خدارا کچھ تو عوام کا احساس کیجئیے۔

Check Also

Benazir Bhutto Shaheed Ki Judai Ka Zakham

By Syed Yusuf Raza Gilani