Tarazu Ke Palre
ترازو کے پلڑے
کانوں کا سنا اور آنکھوں کا دیکھا، بعض اوقات غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ بعض مخصوص حالات میں ہم وہی کچھ دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں۔ جو ہم پسند کرتے ہیں۔
یہ کیفیات مجھ سمیت سب میں پائی جاتی ہیں۔ کیوں کہ ہم انسان ہیں اور انسان جتنا مضبوط ہے اتنا ہی کمزور بھی ہے۔ ایک طرف انسان پہاڑوں کو چیر کر نہر نکال لیتا ہے، چاند پر پہنچ جاتا ہے۔ ہوا کو قابو میں کرکے فائدہ اٹھاتا ہے، سمندر کی گہرائی ماپ لیتا ہے۔
دوسری طرف یہی انسان اپنی نفسی کمزوریوں کے ہاتھوں دوسروں کا کھلونا بن جاتا ہے۔ اپنی ذات کی کمزوری پر قابو نہی پا سکتا ہے۔ یعنی انسان کی شخصیت میں مضبوطی اور کمزوری دونوں ہی موجود ہیں۔ جن میں توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔
رب تعالیٰ کا عطا کیا ہوا یہ توازن ہم انسانوں کو اپنی اوقات یاد دلاتا رہتا ہے۔ جہاں یہ توازن خراب ہوتا ہے۔ انسان یا تو فرعون بنتا ہے، یا پھر لاوارث ہو کر مٹی میں گرتا ہے۔
آپ پاکستان کے خواص اور عوام دونوں کو دیکھ لیں۔ ہمارے صاحب اقتدار اور اشرافیہ میں بہت سے لوگ ذہین، حوصلہ مند، با صلاحیت ہیں۔ یہ عوام کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت اور ہمت رکھتے ہیں۔ لیکن ان سب کی بشری کمزوریاں آڑے آ جاتی ہیں۔ یہ خوشامد پسند، انانیت اور بعض حالات میں خود غرضی کو شکست نہیں دے پاتے۔
ان کی میں نہیں مرتی۔ یہ کسی کو اپنے متبادل کے طور پر تیار نہیں کرتے۔ کیوں کہ یہ کسی اور کو اپنی جگہ دینے پر تیار نہیں ہوتے۔
کسی عہدے پر براجمان ہونے کے بعد یہ لوگ اپنے کانوں سے سننا اور اپنی آنکھوں سے دیکھنا بند کر دیتے ہیں۔ تنقید ان سے برداشت نہیں ہوتی اور مدح سرائی کے سریلے راگ انھیں اچھے لگتے ہیں۔
توازن خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ پلڑا ایک طرف جھک جاتا ہے۔ وہ ذہانت اور تجربہ جسے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے مفاد میں استعمال ہونا تھا۔ وہ اقربا پروری کی اندھیری گلیوں میں کھونے لگتا ہے۔ اس تجربے کے خاک بننے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ مگر آنکھیں دیکھ نہیں پاتی اور کان بہرے ہو جاتے ہیں۔
پلڑے کا بوجھ اور جھکاؤ بڑھتا جاتا ہے۔ توازن خراب ہوتا جاتا ہے۔ دماغ خطرے کی گھنٹیاں بجاتا ہے۔ مگر دل خوش فہمی کے سمندر میں تیرتا رہتا ہے۔
قدرت کے قانون کے مطابق کسی نے تو توازن برقرار رکھنا ہی ہے۔ پھر غیبی ہاتھ پلڑوں کا توازن برقرار کرنے کے لیے آ جاتے ہیں اور اسے مداخلت سمجھا جاتا ہے۔ ہم انسان اپنی کوتاہیوں کو بھول کر دوسروں پر الزام تراشی شروع کر دیتے ہیں۔
یہ سارا عمل صرف ایک بار نہیں ہوتا، بلکہ بار بار یہ قسط چلتی ہے۔ دیکھنے والوں کو اکتاہٹ ہو جاتی ہے۔ مگر پرفارم کرنے والوں کا دل نہیں بھرتا۔