Sirf Tanqeed Na Karen
صرف تنقید نا کریں
راوی لکھتا ہے کہ پچھلے زمانوں میں ایک نوجوان مصور اپنے استاد کےپاس گیا اوربولا، استاد محترم میں نے یہ تصویر بہت محنت سے بنائی ہے۔ آپ اسےدیکھیں اور اپنی رائے کا اظہار کریں۔
استاد نے تصویر کا بغور جائزہ لیا اور کہا اسے چوراہے میں اس جگہ لٹکا دو جہاں ہر آتےجاتےکی نظراس پر پڑےاور نیچے لکھ دو کہ اگر اس تصویر میں کوئی غلطی نظر آئے تو پنسل سے اس پر گول دائرہ بنا دیں۔ شاگرد نے استاد کے حکم کی تکمیل کی۔
شام کو استاد نے کہاکہ اپنی تصویر چوراہے سے اتار کر لاؤ۔ شاگرد جب تصویر اتارنے گیا تو اس نے دیکھا کہ تصویر پر اتنے گول دائرے ہیں کہ اصل تصویر کہیں چھپ گئی ہے۔ شاگرد بوجھل دل کے ساتھ استاد کے پاس اپنی تخلیق لے کر آیا۔
استاد نے دوبارہ حکم دیا کہ ایسی ہی ایک تصویر اور بناؤ نیچے لکھو کہ تصویر میں جو غلطی نظر آے اسے درست کر دیں اور اسے بھی چوراہے میں لٹکا دو۔ شاگرد نے حکم کی تکمیل کی۔ شام کو جب وہ اپنی تصویر لینے گیا تو مارے حیرت کے ششدر رہ گیا۔ کیونکہ تصویر پر ایک بھی نشان نہیں تھا۔
مصور دوڑتا ہوا استاد کے پاس ایا اور حیرت کا اظہار کیا۔ استاد نے مسکراتے ہوئے کہا بیٹا میرا آج کا سبق یاد رکھنا دوسرے کی غلطی نکالنا بےحد اسان ہے ہے مگر کسی کی غلطی سدھارنا۔۔ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
شاید یہ گھسا پٹا قصہ بہت سے لوگوں نے سنا ہوگا۔ لیکن یادہانی کا ایک مقصد ہے۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں ہم میں سے ہر شخص دوسرے پر تنقید کرتا نظر آئے گا۔ چاہے وہ تنقید گھریلو سطح پر ہو یا سماجی سطح پر۔۔ ناقدین ہمہ وقت اس کام کو کارخیر سمجھتے ہوئے سرا نجام دے رہے ہوتے ہیں۔
دراصل تنقید کرنا آسان کام اور کسی کو سراہنا مشکل امر ہے۔ کسی کی خوبی کو سراہنے کے لئے کھلا اور بڑا دل چاہئے جو ہم پاکستانیوں کےپاس کم ہی ہے۔
ہم لوگ کسی کی کامیابی کو دیکھ کر برکت کی دعا دینے کی بجائے عجیب غم کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ہاں کسی کی ناکامی پر اسے پر شہ دینے ضرور پہنچ جاتے ہیں۔ ساتھ ساتھ اسے یہ بھی باور کروا دیتے ہیں۔ کہ یہ ناکامی اس کے کسی گناہ کےسبب ہے۔
میں نے اپنی پوری زندگی میں کسی کو دوسرے کی کھلےاور سچے دل سے تعریف کرتے نہیں دیکھا۔ ہاں نکتہ چینی اور تنقید کرتے ہوئے ضرور دیکھا ہے۔ گھریلو سطح پر خواتین سسرال پر ساری زندگی نچھاور کردیں گی۔ اولاد اور شوہر کو اپنی زندگی کا بہترین وقت دیں گی۔ مگر ان بیچاریوں سے ان افراد کے گلے شکوے کبھی دور نہیں ہوں گے۔
سماجی لحاظ سے پاکستان میں مجھے تو کوئی ایسا ادارہ نظر نہیں آیا جہاں کام کرنے والوں کی قدر ہو یا ان کی صلاحیتوں کو سراہا جاتا ہو۔ آپ اپنی ہڈیوں کو نچوڑ کر بھی کسی ادارے کے افسران بالا کو خوش نہیں کر سکتے۔
الحمداللہ رب العالمین، بے شک ہر طرح کی تعریف صرف میرے رب کریم کی ہے۔
لیکن انسانوں کی جائز خوبیوں کو سراہنا کوئی قابل گرفت بات تو نہیں۔ خوشامد نہیں سچی تعریف کا ایک چھوٹا سا جملہ دوسرے کے اندر ایک انرجی ڈال دے گا۔ وہ اپنی صلاحیت کو مزید بہتربنانے کی کوشش کرے گا۔ کسی کے کام میں نقص نکالنا ہم لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اور یہ ک ہم بے حد بے دردی اور سفاکیت سے کرتے ہیں۔
یاد رکھیں حد سے تجاوز اللہ تعالیٰ کو بھی نہیں پسند ہے۔ اس لئے جائز تنقید بھی کریں لیکن کسی کی خوبی کو دل سے سراہنے کی عادت بھی ڈالیں۔ کیونکہ اس میں آپ کے پیسے بالکل خرچ نہیں ہوتے۔