Siasi Shaoor
سیاسی شعور
میرے مرحوم والد محترم پیپلز پارٹی کے سپورٹر اور ووٹر تھے۔ انھیں ذوالفقار علی بھٹو شہید سے اتنی محبت تھی کہ اپنے ایک بیٹے کا نام اپنے لیڈر کے نام پر رکھا اور اپنی ایک بیٹی کا نک نیم بے نظیر شہید کے محبت کے نام پر رکھا۔ والد محترم بھٹو شہید کی تقریر مکمل خاموشی اور توجہ سے سنتے اور سراہتے۔
میری والدہ مرحومہ نواز شریف کو بے حد پسند کرتی تھیں۔ انھوں نے بازار میں نواز شریف کو جلسے میں اس وقت دیکھا جب وہ غالبا ایم پی اے کا الیکشن لڑ رہے تھے۔ انھیں نواز شریف کا انداز پسند آیا۔ انھوں نے ہمیشہ نواز شریف اور والد نے بھٹو شہید کی پارٹی کو ووٹ دیا۔
ہم بہن بھائی بھی اسی طرح اپنا الگ انتخاب رکھتے تھے۔ بڑے بھائی مرحوم جماعت اسلامی کو پسند کرتے تھے۔ مرحومہ بڑی بہن بھٹو شہید کو سراہتی تھیں۔ چھوٹا بھائی شہباز شریف کا فین تھا اور ہے بھی۔
نئی نسل میں یعنی بہن بھائیوں کے بچوں میں زیادہ تر عمران خان کو پسند کرتے ہیں اور اسے ووٹ بھی دیتے ہیں۔
میرے سارے اوورسیز رشتے دار عمران خان کو پسند کرتے ہیں۔ یہ لوگ مجھے پتا نہیں کون کون سی ویڈیوز سینڈ کرتے رہتے ہیں۔ جن میں عمران خان کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں میری خالہ مرحومہ کے بیٹے ہالینڈ سے آئے، اور بولے عمران خان کے خلاف بات نا کرنا لڑائی ہو جائے گی۔ میں نے ہنس کر کہا بالکل ٹھیک۔
میرا ایک ہی اصول ہے کہ سیاسی لیڈر کی محبت کے اندھے پیروکار کے ساتھ بحث و مباحثہ سے گریز کرتی ہوں۔ کیوں کہ جانتی ہوں یہ بے مقصد ہے۔ وہ کبھی اپنے لیڈر کے خلاف نہیں سنے گا۔
میں اور میری قریبی سہلیاں کالج کے زمانے سے پاک فوج کو بے حد پسند کرتی ہیں۔ ہم لوگوں کو فوج ڈسپلن، یونیفارم اور ترانے پسند تھے اور ہیں بھی۔ میں سوشل میڈیا کے ہر فارم پر پاک فوج کو سپورٹ کرتی ہوں۔ کیوں کہ بحیثیت پاکستانی اسے اپنا فرض سمجھتی ہوں۔ جو ہمارے محافظ ہیں۔ انکی عزت ہم کیوں نا کریں۔ جو ہم پر اپنی سب سے قیمتی شے یعنی اپنی جان نچھاور کر دیں۔ ہم ان سے محبت کیوں نا کریں؟ یہ میرا ماننا ہے۔
یہ سیاسی تقسیم اس وقت کم و بیش پاکستان کے ہر گھرانے میں ہے، لیکن اس دور میں اور پچھلے چند دہائیوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔
میں نے اپنے گھر میں کبھی سیاسی بحث نہیں دیکھی اور نا ہی کسی کو دوسری جماعت یا اس کے لیڈر کو برا بھلا کہتا سنا۔ حتی کہ عمران خان کو پسند کرنے والے لوگ بھی دوسری جماعتوں کے لیڈرز کو برا نہیں کہتے۔
میں نے کالج، یونیورسٹی میں کبھی سیاسی بحث، احتجاج کی باتیں نہیں سنیں۔ صرف شہباز شریف کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ جب سے اس کی گورنمنٹ آئی ہے لاہور خوبصورت لگنے لگا ہے۔ کالج، یونیورسٹی میں جمعیت طلبہ کے کارکن صرف درس کے لیے بلاتے تھے اور وہ بھی بہت ہی کم طلبہ جاتے تھے۔ مگر کبھی زبردستی نہیں کی گئی۔
جنرل مشرف کا جب دور آیا۔ ہم صبح اورئینٹل کالج گئے۔ واحد مرحوم استاد محترم رفیع الدین ہاشمی صاحب بازو پر کالی پٹی باندھ کر جماعت میں آئے۔ مکمل لیکچر لیا۔ ایک لفظ بھی سیاست پر نہیں بولا، اور چلے گئے۔ باقی کسی نے یہ زحمت بھی نہیں کی اور نا ہی ہمارے سامنے کوئی اچھی بری رائے پیش کی۔
بریک ٹائم میں جمعیت طلبہ کے ساتھ آٹھ لڑکوں کو دیکھا جو بس میں بیٹھ کر چلے گئے۔ پتا چلا کہیں احتجاج کرنے گئے ہیں۔ بعد میں ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے چھپے ہوئے لڑکے باہر نکل آئے۔ کیوں کہ وہ احتجاج میں جانا نہیں چاہتے تھے۔
ہم نے نارمل دن گزارا اور سب لوکل ٹرانسپورٹ میں خیریت سے گھر پہنچے۔ پورے ڈیپارٹمنٹ میں صرف دو یا تین لوگوں کے پاس موبائل تھا۔ کسی کو یہ فکر نہیں تھی کہ گھر واپسی کیسے ہوگی؟ نا ہی گھر والوں کو بچوں کی پریشانی تھی۔
چند دن بعد پتا چلا، ہمارے وائس چانسلر ریٹائرڈ آرمی آفیسر بن گئے۔ یہ بات بھی صرف ایک خبر کے طور پر لی گئی۔ نا ہی کوئی احتجاج ہوا ناہی کوئی ہڑتال کی کال آئی۔ کبھی کبھار ناصر باغ میں کوئی جلسہ نظر آتا جسے ہم سرسری طور پر دیکھتے اور آگے بڑھ جاتے۔
آپ صرف دو دھائیوں کے بعد آنے والے شعور کو دیکھیں کہ میری والدہ میری واپسی کے لیے کبھی پریشان نہیں ہوئیں۔ حالانکہ میں یونیورسٹی میں لوکل ٹرانسپورٹ استعمال کرتی تھی اور میرا بیٹا جب کالج جاتا ہے تو اس کی واپسی تک میری جان سولی پر لٹکی رہتی ہے۔ میرے شوہر ہر روز اسے کہتے ہیں۔ کسی احتجاج میں شریک نا ہونا، گھر آجانا اور وہ بیچارہ ہر روز والد کو یقین دلاتا تھک جاتا ہے۔
میرے اسکول کے بچوں کو اساتذہ ہر روز اینکر پرسنز سے لے کر، ٹوئٹر تک کا شعور دیتے ہیں۔ ایک سیاسی جماعت کے علاوہ باقی سب کی اور پاک فوج کی نفرت ان کے دلوں میں انڈیلتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ان جماعتوں کو اگر ووٹ دیا تو توہین رسالت ہوگی۔ اس فوج نے ملک کو برباد کر دیا ہے۔ میں تقریباً ہر تیسرے دن ایک نئی بات سنتی ہوں اور پھر بچوں کو سمجھاتی ہوں۔ بحث نہیں کرنی اور خاموش رہنا ہے۔ جو بولتے ہیں بولنے دو۔ آپ لوگ صرف اپنے والدین کی بات سنو۔ میرے بچے مجھے یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان یو ٹیوبرز کے وی لاگ سننا حرام اور ان کے حلال ہیں۔
شوہر فوراََ کہتے ہیں، اب اسکول فون نا کر دینا، بچے بھی کہتے ہیں نہیں نہیں فون نہیں کرنا ٹیچرز بار بار طنز کرتے ہیں اور میں ملک کے طول و عرض میں پھیلے سیاسی شعور کے بارے میں سوچ کر پریشان ہو جاتی ہوں کہ آخر اتنی تقسیم کیسے اور کیوں پیدا ہو رہی ہے۔
پچھلی باشعور نسل سنبھل نہیں رہی اور نئی نسل تیار کی جا رہی ہے۔
میرا بیٹا حالیہ احتجاج کے بعد بولا مجھے تو اس نجی کالج کی لڑکیوں سے ڈر ہی لگنے لگ گیا ہے۔ میں نے ہنس کر کہا اچھی بات ہے نیک شریف لڑکے لڑکیوں سے ڈرتے ہی ہیں۔ وہ بولا نہیں آپ سمجھ نہیں رہی ہیں۔
میں خاموش رہی اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ گئی اور دکھ ہوا کہ ہم لڑکیاں تھیں مگر اس دور میں حد کے اندر رہتے ہوئے ہلکے پھلکے مذاق کر لیتی تھیں۔ عہد شباب سے لطف اٹھاتی تھیں۔
مگر میرا بیٹا خوفزدہ ہو کر، اپنا کالج کا وقت گزارے گا اور اسکولز کے چھوٹے بچے ابھی سے دل میں نفرت رکھیں گے۔ جب ہمیں اپنے اساتذہ کی باتیں نہیں بھولیں۔ تو ان کے دلوں میں کہیں نا کہیں یہ باتیں موجود رہیں گی۔ زندگی کی مشکلات کو یہ سیاسی ماحول سے جوڑ کر سارا الزام صاحب اقتدار پر ڈالیں گے اور کسی کی عزت نہیں کریں گے۔
سلام ہے اس سیاسی شعور کو، سلام ہے سہولیات سے لطف اٹھانے والے سیاسی جماعت کے لیڈر کو۔
نا جانے ہم سے کس چیز کا بدلہ لیا۔ ہماری نسلوں کو تباہ کر دیا۔ معاشرے میں اتنی تقسیم پیدا کر دی کہ سب پاکستان کو بھول کر جماعتوں میں بٹتے جا رہے ہیں اور ہم والدین نے بچوں کے ہاتھوں میں اسمارٹ فون کی شکل میں ایک عزاب دے دیا اور گورنمنٹ نے فری انٹرنیٹ کی سہولت دے کر کالج ٹائم کو مزید بہتر بنا دیا۔
جب سے یہ فری انٹرنیٹ ملا ہے، کتنے طالب علموں نے اس سہولت کو اپنی تعلیم کے لیے استعمال کیا ہے؟ کون سی ایجادات کر لی ہیں۔ سیاستدان تو خود ویڈیوز بنا کر اپلوڈ کرنے کے شوقین ہیں۔ وہی کام بچے بھی کر رہے ہیں۔ پنجاب گورنمنٹ ان کاموں سے سی ایم پنجاب کی محبت نئی نسل کے دلوں میں نہیں ڈال سکتی۔ کیوں کہ یہ لوگ تو شہباز شریف کے دئیے گئے لیپ ٹاپ کو ان کے خلاف استعمال کرتے تھے۔ سیاسی کارکنان کی محبت تو ویسے ہی آنکھوں محروم ہوتی ہے۔ جب آپ کے کارکنان دوسروں کی نہیں سنتے، تو دوسرے آپ کی کیسے سنیں گے؟ اب تو صرف ہم عام عوام یہ دعا کرتے ہیں کہ اس اندھے بہرے سیاسی شعور سے ہماری نسل کو محفوظ رکھے۔