Siasi Drame
سیاسی ڈرامے
پاکستان شاید دنیا کے چند ممالک میں سے ایک ہے۔ جہاں میڈیا عوام کو ہر طرح سے اینٹرٹین کرتا ہے۔ سپورٹس چینل ہو یا نیوز ہمارے میڈیا کے مالکان لوگوں کی تفریح کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ سپورٹس چینل کھیلوں کو کم کھلاڑیوں کی شادیاں، ان کے بچے، پھر بچوں کے بچے، کھلاڑیوں کے بریک آپ میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ قسمت اور محنت سے کوئی کھلاڑی کسی بھی کھیل میں جیت جائے۔ جب تک اسے مکمل تباہ نا کر لیں۔ اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے اور جب تک کپل کا بریک آپ نا ہو جائے، ان کی جان نہیں چھوڑتے۔ پاکستان کے نیوز چینل آج کل زبردست ڈرامے بھی بناتے ہیں اور ان کے یہ ڈرامے چند گھنٹوں کے لیے ہٹ بھی ہو جاتے ہیں۔
یہ نیوز چینل بریکنگ نیوز کی تلاش میں ایسے رہتے ہیں۔ جیسے عام عوام سستی ضروریات زندگی کو ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ بس ان نیوز چینل کے ہاتھوں کوئی بریکنگ نیوز آنے کی دیر ہے۔ اینکرز پرسنز کی آواز اونچی اور جزبات سے بھرپور ہو جائے گی۔ ہر چینل اپنے اپنے صحافیوں کو نیند سے اٹھا کر ان کی رائے لینا شروع کر دے گا۔ بریکنگ نیوز کے خفیف سے خفیف پہلو کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ منفی اور مثبت رائے پیش کی جائے گی۔ ہر جماعت کے سیاسی ترجمانوں کو لائن پر لیا جائے گا اور وہ بیچارے اپنی وفاداریاں ثابت کرنے کے لیے جان لڑا دیں گے۔ پر ہار نہیں مانیں گے اور جب تک عوام تھک ہار کر ٹی وی بند نا کردیں، یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
پچھلے ایک ہفتے سے تمام سیاسی جماعتوں نے آئینی ترمیم کا ایک زبردست موضوع پورے میڈیا کو فراہم کر دیا اور میڈیا نے پوری قوم کو رات تک ذہنی ٹارچر کرنے میں کوئی کسر نا چھوڑی۔ تمام سیاست دانوں کو ایک روپیہ خرچ کیے بغیر زبردست میڈیا کوریج ملی۔ صحافیوں، تجزیہ نگاروں اور اینکر پرسنز نے سکھ کا سانس لیا کہ ایک ہفتے کا میٹریل مل گیا۔ پہلے ٹی وی پروگرامز میں، پھر اپنے اپنے یو ٹیوب چینلز پر بول بول کر سب صحافیوں کے بلڈ پریشر، شوگر لو اور ہائی ہوگئی۔ مگر مجال ہے، چند ایک کے سوا کسی نے بھی بریک لیا ہو۔ میں نے ایک کلپ دیکھا، جس میں ایک سیاسی جماعت کے لیڈر فرما رہے تھے کہ جلد قوم کو خوشخبری سنائیں گے۔ یقین مانئیے اس معصومانہ بات پر دل سے ہنسی آئی۔ قوم کو جن خوشخبریوں سے دلچسپی ہے، سب یہ بخوبی جانتے ہیں۔ پہلے سیاست دان اپنے مسائل سے نمٹ لیں پھر عام عوام کی خوشیوں کا بھی سوچ لیں۔ جلدی کیا ہے؟
اندازہ کریں دہائیوں سے تاج حکمرانی پہننے والے جید عمر رسیدہ سیاسی لیڈران ایک آئینی ترمیم کا مسئلہ حل نا کر سکے۔ اس معصومیت پر قربان ہونے کو دل چاہتا ہے۔
سیاستدانوں سے التجا ہے کہ اپنے سیاسی ڈراموں کے اسکرپٹ، کہانی اور ڈائریکشن پر توجہ دیں۔ انیس سو ستر کے سیاسی ہتھکنڈوں کو خیر آباد کہہ دیں۔ اپنی سیاسی بصیرت کو جدید خطوط پر استوار کریں۔ پھر جب باشعور عوام آپ پر تنقید کرتی ہے اور آپ کی عزت نہی کرتی، تو آپ کے پیڈ کارکنان زبانوں کے خنجر نکال کر میدان میں اتر آتے ہیں اور آپ سب بھی گلے شکوے شروع کر دیتے ہیں۔
مجھ عام عوام کو لگتا ہے اس سیاسی ڈرامے کا اینڈ کافی فرسودہ ہوا۔ اسکرپٹ بہت کمزور تھا۔ پندرہ بیس منٹ دیکھنے کے بعد ہی اختتام نظر آگیا تھا۔ بحیثیت مجموعی یہ ایک فلاپ ڈرامہ تھا۔ آئینی ترمیم کیسے بنائی جاتی ہے اور کیسے پاس کروائی جاتی ہے۔ یہ اس ترمیم کو بنانے اور پاس کروانے والے بخوبی جانتے ہیں اور اصل حقیقت بھی یہی ہے۔