Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Roohani Waldain

Roohani Waldain

روحانی والدین

دنیا کے سب سے شاندار معلم کے بارے میں جب سوچو تو سب سے پہلے اپنے پیارے نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کا خوبصورت نام ذہن میں روشنی بن کر لپکتا ہے۔ صحابہ صفاؓ کی تو تربیت کی ہی تمام بنی نوعِ انسان کا اخلاق اور کردار سنوار گئے۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی تو پسندیدہ دعا بھی علم میں اضافے کی دعا ہے۔

جب دنیاوی تعلیم دینے والے اپنے اساتذہ پر نظر دوڑاوں تو اپنی خوش قسمتی کا احساس شدت سے ہوتا ہے۔ کیوں کہ آج بولنے اور لفظوں سے کھیلنے کا جو مختصر سا ہنر میرے پاس ہے وہ میرے اساتذہ کی دین ہے۔

اسکول کے زمانے کے میرے محترم سر سعید مرحوم جنھوں نے اردو اور شاعری سے محبت کروا دی۔ محترم سر شہزاد، سر یونس، سر اعجاز جنھوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر مجھے بائیولوجی، فزکس اور کیمسٹری پڑھائی۔ میم لبنیٰ میم شاہین جن کے شفقت ناقابل فراموش ہے۔

سر مقصود جنھوں نے انگلش لینگویج اور کمپیوٹر کورس کروائے۔ سر جعفر جنھوں نے نالائق دیسی لڑکی کو انگلش کے جملے سکھانے کی بھرپور کوشش کی۔ میرے سر قدیر انصاری جنھوں نے مجھے بی اے میں انگلش کا مضمون پاس کروانے کا بیڑہ اٹھایا۔ اور کامیاب رہے۔ جب میں یونیورسٹی پہنچی تو اپنی اکیڈمی میں مجھے جاب دے کر میرے لیے حصول تعلیم کو مزید آسان بنایا۔

کالج کی ٹیچر مسز تسنیم مشتاق کے آگے تو میں سر اٹھانے کے قابل نہیں۔ میری اردو میں دلچسپی دیکھتے ہوئے مجھے خصوصی شفقت سے نوازا۔ مجھے اورئینٹل کالج کا خواب دکھایا۔ مجھے سمن آباد گورنمنٹ کالج میں اعزازی طور پر بچیوں کو پڑھانے کا موقع دیا۔

اورئینٹل کالج کے سر زکریہ کا شمار میری زندگی میں ملنے والے بہترین لوگوں میں ہوتا ہے۔ سر اکرم، سر تحسین فراقی، سر کامران، سر زاہد منیر عامر، سر طاہر، سر نوری، سر اورنگزیب، سر سہیل کس کس کی احسان مند رہوں گی؟

میم بصیرہ جو ٹیچر کم سہیلی زیادہ لگتی تھیں۔ بہت خوبصورت میم عارفہ، بھولنے کے قابل نہیں۔

میرے والدین تعلیم یافتہ نہیں تھے مگر ان کی محبت اور شفقت انمول تھی۔ ان کی دعائیں تھیں جو مجھے اساتذہ کی صورت میں روحانی والدین ملے۔ جنھوں نے میری چھوٹی موٹی صلاحیتوں کو نکھارا، میری حوصلہ افزائی کی۔

میں اپنے اساتذہ کی محبت کی مقروض ہوں۔

میں نے خود بھی تدریس کا شعبہ چنا۔ لیکن پرائیویٹ سیکٹر میں۔ یونیورسٹی سے اسکالرشپ لینے کے باوجود گورنمنٹ جاب نا مل سکی۔ پرائیویٹ اسکولز میں اساتذہ کا جس طرح استحصال ہوتا ہے یہ بہت ہی تکلیف دہ تجربہ تھا۔

انتہائی قلیل تنخواہ اور کام مزدوروں کی طرح کریں۔ یعنی پرائیویٹ اسکول میں نوکری کرنے والا استاد اپنی تنخواہ سے اپنا گھر چلانا تو دور کی بات کچن کا خرچہ بھی نہیں اٹھا سکتا اور آپ جتنی بھی جان مار لیں آپ کی جاب کی کوئی گارنٹی نہیں۔ میرے لیے یہ بڑے اذیت ناک تجربے تھے۔ مخصوص سلیبس، رٹا سسٹم، نالج کم نمبرز کی فکر زیادہ۔۔

پرائیوٹ اسکولز ایک مافیا بن چکے ہیں۔ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایک گلی محلے کا چھوٹا موٹا اسکول بھی لاکھوں میں کما رہا ہے۔ کاپیوں، کتابوں میں تو کمائی ہے ہی۔ ان کی تو ردی بھی بکتی ہے۔

والدین کی جیبیں خالی کرواتے ہیں اور اساتذہ کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے پاکستان میں قوانین موجود ہوں مگر پاکستان میں قوانین پر عمل ہی کب ہوتا ہے؟

انھی معاشی پریشانیوں کے سبب استاد ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور بہترین اسکولز میں بھی جسمانی تشدد کے واقعات سامنے آتے ہیں۔

ہمارے ملک میں اساتذہ کی جانچ کا کوئی موثر نظام نہیں ہے۔ بعض اوقات ذہنی مریض استاد بچوں پر حکمرانی کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ بچے کو ذہنی اذیت دیتے ہیں۔ میری صاحب اقتدار سے گزارش ہے کہ استاد کے ہاتھوں میں قوم کے معمار ہوتے ہیں۔ ان کی تربیت کے لیے حکومتی سطح پر کوئی ادارہ بنا یا جائے۔ جہاں ان کا نفسیاتی تجزیہ بھی کیا جائے۔ ان کو معاشی فکروں سے آزاد کیا جائے۔

جب استاد ایسے بنیں گے کہ جن کی جوتیاں خلیفہ وقت کے بیٹے اٹھانے کو دوڑیں تو طالب علم بھی استاد کو اپنے روحانی والدین ہی سمجھیں گے۔

Check Also

Muhib e Watan Bangali

By Syed Mehdi Bukhari