Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Pakistani Sahafat

Pakistani Sahafat

پاکستانی صحافت‎

میں نے اپنے بچپن میں گھر میں ایک اخبار ہر روز بچوں کا ایک رسالہ ہر ماہ میری فرمائش پر آتے دیکھا۔ والد مرحوم کو ہر روز صبح اخبار پڑھتے اور رات نو بجے کا خبرنامہ دیکھنے کی عادت تھی۔ یہ عادت ہم کچھ بہن بھائیوں میں بھی منتقل ہوگئی۔

میں نے اس دور میں کسی خاص صحافی کا نام نہیں سنا، نا ہی کبھی ان میں دلچسپی محسوس کی۔ قریبی سہیلی کالم پڑھنے کی شوقین تھی۔ اس نے نذیر ناجی کے کالم پڑھنے کو کہا۔ مجھے ان کالمز میں کچھ خاص دلچسپی محسوس نہیں ہوئی۔ ہم سہیلیاں صرف بے نظیر بھٹو شہید اور نواز شریف کی خبروں میں دلچسپی رکھتے۔ میرا تحریر سے تعلق صرف بچوں کے رسالے میں ایڈیٹر کو خط لکھنے کی حد تک تھا یا فیملی میگزین میں چند کہانیاں اور ایڈیٹر کو تنقیدی خط لکھا۔

کچھ آزاد نظمیں فیملی میگزین، اورئینٹل کالج کے رسالے سخن، پنجاب یونیورسٹی کے رسالے دستک میں بھی شائع ہوئیں۔ میں اور میری سہیلی ان کی بھی نائب ایڈیٹر تھیں۔ ہم نےکسی بھی صحافی کو کبھی نوٹس نہیں کیا۔ یہ روٹین اورئینٹل کالج تک جاری رہی۔ پھر جنرل پرویز مشرف کا دور حکمرانی آیا۔ یقین مانیے، صحافیوں کا ایک طوفان چینلز پر آگیا۔ نو بجے کے خبرنامہ نے ایک درخت کی طرح اپنی بہت سی شاخیں نکال لیں۔

صحافی سٹار اور سپر سٹار بننے لگے۔ جو صحافی اپنے پروگرام میں سیاستدانوں حتیٰ کہ جنرل پرویز مشرف سے بھی تلخ سوال پوچھتا، وہ عوام کے نزدیک بہادر اور ہیرو بننے لگا۔ یونیورسٹی میں صحافیوں کی شخصیت موضوع بحث بننے لگی۔

لوگ تفریحی ڈرامے، پروگرام بھول گئے اور صحافیوں کے پروگرامز دیکھنا شروع کر دئیے۔

اس دور میں بہادری کی صحافت کا پرچار کیا گیا اور سب اس ریس میں شامل ہو گئے۔ چلنے والے دوڑنے اور دوڑنے والے چھلانگیں لگا کر اس ریس کو جیتنے کی تگ ودو کرنے لگے۔

میں نے اس دور میں بہت سے سیاستدانوں کو صحافیوں کے آگے بھیگی بلی بنتے دیکھا۔

پاکستانی سیاستدان کافی ذہین واقع ہوئے ہیں۔ انھوں نے فوراََ مسقبل کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ میڈیا مالکان اور صحافیوں کو حد سے زیادہ اہمیت دینا شروع کی۔ پیش نظر صرف اپنا مفاد تھا۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ صحافت کا شعبہ ایک مافیا بنتا چلا گیا۔ اس وقت پاکستان کے ہر امیر بزنس مین کا اپنا ٹی وی چینل ہے۔

حال یہ ہے کہ صحافی حضرات اپنے بچوں کے ولیمے بھی شاندار کرنے لگے اور سلامیوں کی صورت میں کروڑوں جمع کرنے لگے۔ سیاستدان صحافیوں کو تحائف دینے لگے، اور صحافی اس بات کا برملا اظہار بھی کرنے لگے۔ اسے رشوت نہیں بلکہ تحفے کا نام دیا گیا۔ اس وقت پیارے ملک پاکستان میں ہر سیاسی جماعت کا اپنے صحافیوں کا ایک گروپ ہے۔ جو شاید اپنے والدین اور گھر والوں کے اعمال کی اس طرح وضاحت نا دیتے ہوں گے۔ جیسے سیاستدانوں کو سراہتے ہیں۔ چند ایک کو چھوڑ کر تقریباً سبھی اپنی اپنی سیاسی جماعت کے لیے عوام کی ذہن سازی کرنے میں مصروف ہیں۔

کچھ صحافی حضرات ایسے ہیں، جو ہر واقعہ رونما ہونے کے بعد کہتے ہیں۔ مجھے یہ پہلے سے معلوم تھا۔ کچھ اپنے مستند زرائع کا شور مچاتے ہیں۔ پاک فوج کے ہر اعلیٰ عہدے دار کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس پر تنقید تو سب پر لازم و ملزوم ہے۔ مگر حاضر سروس آفیسرز کو اپنے فیملی فنکشنز میں بلا کر ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنا بھی ضروری ہے اور کچھ شدید محب الوطن ہونے کا ڈرامہ کرتے ہیں۔ انھیں پاکستان سے اتنا پیار ہے کہ پی ٹی وی کے علاوہ کسی چینل پر پروگرام نہیں کرتے۔

صحافیوں کے گروپس بن گئے اور ان کے مالی حالات بہترین ہوتے گئے۔ یہ لوگ حکومتیں بنانے اور گرانے لگ گئے۔ میڈیا نے عوام پر ایک یلغار کر دی۔ یہ میڈیا مالکان اور صحافی اپنے اوپر لگنے والی پابندیوں کو بھی کیش کروانے لگے۔

پھر یو ٹیوب صحافیوں کا دور آگیا۔ اس وقت ملک کے ہر صحافی کا یو ٹیوب چینل ہے۔ پہلے یہ لوگ مختلف چینلز پر اپنے پروگرام کرتے ہیں۔ پھر صبح، دوپہر، شام یو ٹیوب پر پروگرام اپلوڈ کرواتے ہیں اور اگر کوئی بریکنگ نیوز آجائے تو ان پروگرامز کی تعداد میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے۔ سبسکرائب اور ویوز کی خاطر درخواست کی جاتی ہے۔ ان کے ملین سبسکرائبر اور ہزاروں ویوز نے سب نوجوانوں کو یو ٹیوبر صحافی بننے پر مجبور کر دیا اور اس سب کا فائدہ تحریک انصاف نے اٹھایا۔

اس وقت پاکستان میں اگر سو لوگوں کا یو ٹیوب چینل ہے تو ان میں سے پچھہتر فیصد کا تعلق تحریک انصاف سے ہے اور سب سے دلچسپ بات کہ ان میں کوکنگ، بلاگنگ، اینٹر ٹینمنٹ چینلز کی بھرمار ہے۔ یو ٹیوبر صحافیوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔ یہ سب ایک دوسرے کو بھرپور سپورٹ کرتے ہیں اور پاکستان کی صحافت کا مزید جنازہ نکالتے ہیں۔

اس عمل نے صحافت کو مزید ضرب لگائی ہے۔ پاکستان میں خواص کے ساتھ عوام کی بھی ذاتی ویڈیوز، آڈیوز بننے لگی ہیں۔ جس نے مزید تباہی مچا دی اور اخلاق کو مزید پستیوں میں گرا دیا۔

مُجھے اس وقت کوئی ایسا طریقہ نظر نہیں آتا۔ جس سے اس نام نہاد صحافتی یلغار سے بچا جاسکے۔ اندازہ کریں اس ملک کا چیف جسٹس بھی اپنی فیملی کے ساتھ باہر نہیں نکل سکتا۔ سابق آرمی چیف کا اپنی فیملی کے ساتھ شاپنگ کرنا مشکل ہے اور سابق وزیراعظم اپنے گھر کے نیچے گالیاں سن کر اپنے خاندان کی تذلیل کروا کر ذہنی پریشان ہو چکا ہے اور یہ سب کرنے والے یو ٹیوبرز صحافی ہیں۔ جو صحافت کے بڑے ناموں کو دنوں میں ترقی کی منازل طے کرتے دیکھ کر پاگلوں کی طرح اس راستے پر دوڑ رہے ہیں۔

پاکستان کے چند صحافیوں کو چھوڑ کر زیادہ تر منافقت کے اعلیٰ درجے پر ہیں۔ ہم سیاستدانوں کو کہتے ہیں کہ ان کا کوئی اعتبار نہیں۔ مگر صحافیوں نے بھی یہی راستہ اختیار کر لیا ہے۔ اس راستے پر دنیا میں تو شاید کامیابی مل جائے مگر آخرت میں منافقت کا بوجھ اٹھانا شاید ممکن نا ہوگا اور پھر صرف خسارے ہاتھ میں آئیں گے۔

التجا ہے کہ آپ کی محب الوطنی پر ہر گز شک نہیں۔ مگر کم از کم کچھ تو اعتدال کا راستہ اختیار کریں۔ اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق ہر پاکستانی کو ہے۔ چاہے وہ صحافی نا بھی ہو۔ مگر اس رائے کو بالکل نیوٹرل اور پاکستان کے حق میں ہونا چاہیے۔ منفرد بات کرنے کے چکر میں، مالی فوائد کی خاطر اپنی شخصیت کو نقصان نا پہنچائیں۔ عام عوام کا خیال کریں۔ آپ کی ترجیح سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ ملک اور عام عوام ہونی چاہیے۔

Check Also

Janaze

By Zubair Hafeez