Nishan e Haider
نشان حیدر
معلومات تک رسائی جس قدر آسان ہوتی جا رہی ہے، معلومات حاصل کرنے کا شوق اور تجسس اتنا ہی کم ہوتا جا رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی وجہ سے کتاب خریدنے اور پڑھنے کا شوق بھی معدوم ہوگیا ہے۔ یعنی ہر کوئی تعلیمی، معلوماتی ویب سائیٹس اور ایپز کے متعلق جانتا ہے۔ مگر پھر بھی اس کا استعمال کم ہے۔ ہم لوگ سہل پسند بن گئے ہیں۔ ہمیں اچھا لگتا ہے کہ سوال کا جواب کوئی بول کر بتا دے تا کہ ہمیں تلاش نا کرنا پڑے۔ حتی کہ اب تو لوگ ٹائپنگ کے لیے بھی آواز کا سہارا لیتے ہیں۔ تا کہ انگلیاں حرکت میں نا آئیں۔ ایسے حالات میں کون گیان کے سمندر میں ڈبکی لگائے اور موتی چن کر لائے۔۔
پچھلے دنوں خیال آیا کہ بچوں کو نشان حیدر کے متعلق معلومات دی جائیں۔ کیوں کہ مجھ سمیت سب یہ تو جانتے ہیں کہ یہ پاکستان کا سب سےبڑا فوجی اعزاز ہے۔ مگر کتنے لوگوں کو دیا گیا یہ معلوم نہیں۔ صرف ان شہداء کا علم ہے جن کا ذکر نصابی کتب میں کیا گیا ہے۔ نشان حیدر کی ساخت اور تیاری کے حوالے سے بھی معلومات کا فقدان نظر آیا۔ لہذا میں نے معلومات اکھٹی کیں۔ یہ معلومات میں نے اپنے بچوں کے لیے تلاش کیں۔ لیکن آپ سب کے لیے بھی حاضر ہیں۔
جانتی ہوں آپ کہیں گے کہ یہ معلومات تو گوگل سرچ سے مل جاتی ہیں۔ اصل مسئلہ بھی تو یہی ہےکہ معلومات تک رسائی تو آسان ہوچکی ہے مگر معلومات کا پھیلاؤ نا ہو سکا۔ میری ادنی کوشش معلومات کو پھیلانے کی ہے۔
نشان حیدر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے۔ 3 مئی 1956 کو اس وقت کے پاکستانی صدر، اسکندر مرزا نے، ملک کے عام شہریوں اور فوج کے لیے خدمات ادا کرنے والے افراد کو اعزازات سے نوازنے کا اعلان کیا۔
اس اعلان میں مسلح افواج کے افراد کو نشان حیدر کا تمغہ دینے کا کہاگیا اور یہ تمغہ، فوج کا سب سے بڑا اعزاز کہلایا۔ اس اعزاز کا نام اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت علی رضی تعالیٰ عنہہ کے لقب پر رکھا گیا۔
"حیدر" کا لقب حضرت علی رضی تعالیٰ عنہہ کی والدہ نے انھیں بہادری کےسبب دیا تھا۔ اس کے معنی شیر کے ہیں۔ (میدان جنگ میں بہادری اور شجاعت کی وجہ سے حضرت محمد ﷺ نے حضرت علی رضی تعالیٰ عنہہ کو(شیر خدا) کا لقب بھی عطا کیا تھا۔)
نشان حیدر کی تیاری کا مرحلہ بے حد دلچسپ ہے۔ پاکستانی منٹ (پاکستانی ٹیکسال) یہ وہ جگہ ہے جہاں یہ سکے بنائے جاتے ہیں۔ یہ تیاری وزارت دفاع کے حکم پر کی جاتی ہے۔ اور اسے دشمن سے چھینے گئے اسلحے کو پگھلا کر بنایا جاتا ہے۔ اس میں 88 فیصد تانبا، 10 فیصد سونا اور 2 فیصد زنک یعنی جست شامل کیا جاتا ہے۔
نشان حیدر کی اوپر والی پٹی پر(نشان حیدر) کے الفاظ لکھے ہوتے ہیں اور ہشت پر یہ اعزاز حاصل کرنے والے کے بارے میں مختصر معلومات درج ہوتی ہیں۔ اس تمغے کو ریشمیس سبز رنگ کے فیتے کے ساتھ پہنایا جاتا ہے۔ یہ تمغہ یعنی نشان حیدر برطانیہ کے سب سے اعلیٰ جنگی اعزاز وکٹوریہ کراس، امریکہ کے میڈل آف آنر، فرانس کے لیجن آف آنر اور بھارت کے پرم عیر چکرکے برابر ہے۔
جب سے پیارا ملک معرضِ وجود میں آیا اور اس ملک کی حفاظت کے لٹ فوج کا ادارہ بنایا گیا، تب سے اب تک گیارہ افراد کو اس اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ حالانکہ یہ اعزاز پاک فوج کے کسی بھی رینک کے، کسی بھی فرد کو دیا جس جاسکتا ہے اور صرف شہداء کو ہی دینا ضروری نہیں، تاہم اتفاق ہی کہہ سکتے ہیں کہ اب تک نشان حیدر کا اعلیٰ اعزاز صرف شہداء کے حصے میں آیا ہے۔ اس اعزاز کو حاصل کرنے والوں میں چار میجر، دو کپتان، ایک پائلٹ آفیسر، ایک نائیک، ایک لانس نائیک، ایک حوالدار، اور ایک سوار شامل ہیں۔
نشان حیدر حاصل کرنے والوں میں سب سے بڑی عمر یعنی 44 سال میجر طفیل کی تھی اور سب سے کم عمر راشد منہاس تھے جن کی عمر 20 سال 6 ماہ تھی۔ راشد منہاس نے دوران تربیت شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔ آپ کی معلومات کے لیے بتاتی چلوں کہ نشان حیدر 10 افراد کو ملا مگر ہلال کشمیر کا اعزاز جو کہ اہمیت کے لحاظ سے نشان حیدر کے برابر ہے، اسے شامل کرنے سے تعداد گیارہ ہو جاتی ہے۔
ہلال کشمیر کا اعزاز، آزاد کشمیر رجمنٹ کے نائیک ڈیف علی جنجوعہ شہید کو دیا گیا تھا۔ جب کہ نشان حیدر کو پانے والوں میں کیپٹن محمد سرور شہید، میجر طفیل محمد، میجر راجہ عزیز بھٹی، پائلٹ آفیسر راشد منہاس میجر محمد اکرم، میجر شبیر شریف، سوار محمد حسین، لانس نائیک محمد محفوظ، کیپٹن کمال شیر خان اور حوالدار لالک جان شامل ہیں۔ سب سے پہلا نشان حیدر حاصل کرنے والے کیپٹن راجہ سرور تھے۔ جنھوں نے 27 جولائی 1948 کو کشمیر کے محاذ پر جان دی تھی۔
سب سے زیادہ نشان حیدر یعنی چار تمغے 1971 کی اس جنگ کے بعد دئیے گئے۔ جس میں مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوگیا اور بنگلہ دیش بن گیا۔ ان چار شہیدوں میں سے ایک میجر محمد اکرم وہ واحد شخصیت ہیں۔ جو بنگلہ دیش میں دفن ہیں۔
نشان حیدر یا دوسرے فوجی اعزازات، یہ تمغے صرف شہداء کے وارثوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ہوتے ہیں۔ تا کہ وہ ہمیشہ یاد رکھ سکیں کہ ہمارے پیاروں نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر اس ملک کی بنیادوں اپنا جو لہو ڈالا ہے۔ پوری قوم اس لہو کی مقروض ہے۔ اس کا احترام کرتی ہے۔ ورنہ جن شہداء کو اللہ رب العزت نے زندہ قرار دے دیا۔ جنھیں جنت کی بشارت مل چکی ہے۔ انھیں ان تمغوں سے کیا سروکار۔۔
پاکستان کے لیے جان قربان کرنے والے شہداء ہمارا اثاثہ ہیں۔ ہم پر ان تکریم فرض ہے۔ کیوں کہ جن درختوں کی چھاؤں میں آج ہم بیٹھے زندگی کے لطف اٹھا رہے ہیں۔ ان درختوں کی آبیاری شہداء کے خون سے ہولی ہے۔ اور قوم کو یہ بات کبھی بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے۔